| فکر میں میری اک تو رسا رہ گیا |
| میری ہستی میں بس تو رچا رہ گیا |
| تیرے کوچے میں اک بار رکھا قدم |
| دل ہے پہلو میں بس یہ گماں رہ گیا |
| خوب رو دلنشیں یوں تو دیکھے بہت |
| آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا |
| تیری زلفوں کا یوں میں اسیر ہوا |
| بس تو ہی مدعا قلب و جاں رہ گیا |
| تیرے دربار کے بام و در ہیں حسیں |
| بس تصور انہی کا جما رہ گیا |
| رہ گئی تشنگی پیاس بجھ نہ سکی |
| درمیاں اتنا کیوں فاصلہ رہ گیا |
| ہاں جلا پھر جلا پھر جلا دے مجھے |
| کے ابھی روح میں کچھ خلا رہ گیا |
| سر پہ طوفانِ ہے مضطرب ہوں بہت |
| آ بھی جا میں اکیلا پیا رہ گیا |
| اپنے دامن میں مجھ کو تو دے دے پناہ |
| یہ نہ ہو دشمنوں میں گھرا رہ گیا |
| ہر قدم جو ملی تیرے ذیشان کو |
| تیرے در کی عطا سوچتا رہ گیا |
معلومات