اپنے روضے کے نظارے مجھے آقا دیدو
یعنی جینے کے سہارے مجھے آقا دیدو
بخت میرا بھی سنور جاۓگا میرے آقا
اپنے قدموں کے اتارے مجھے آقا دیدو
ڈولتی ہے مری کشتی شہا طوفانوں میں
بحر عصیاں سے کنارے مجھے آقا دیدو
اس کڑی دھوپ میں آمان کہاں پاؤں میں
زلف مشکین کے ساۓ مجھے آقا دیدو
دیکھنے والوں کی تو رٹ یہی لگ جاتی ہے
پھر سے پھر سے یہ نظارے مجھے آقا دیدو
مری اجڑی ہوئی دنیا کو بسا دو اب تو
شہر بطحہ کی بہاریں مجھے آقا دیدو
اک اشارے سے بناتے ہو شہا بگڑی بھی
ہے تو میرا یہ اشارے مجھے آقا دیدو
رخ کے انوار سے آقا ہوا عالم روشن
میرے دل کے بھی اجالے مجھے آقا دیدو
ہوں گرفتار بلا رنج کا ہوں مارا ہوا
المدد ان سے نکالے مجھے آقا دیدو
پیر اختر ہیں ترے ان کا گدا ہے ذیشان
ان کے صدقے ہی نظارے مجھے آقا دیدو

136