نہیں تھا کام ان سے کچھ وفا کا
کیا ہے کام جب بھی تو جفا کا
مصیبت میں ہمیشہ چھوڑ جانا
رہا ہے کام ان کا تو دغا کا
نگاہیں پھیر کے او جانے والے
ہے تم کو پاس کچھ شرم و حیا کا
ہمیں رسوا سرے بازار کرکے
تقاضہ کرتے ہیں ہم سے جزا کا
نہیں چھوڑا ہے کچھ بھی پاس میرے
ہے باقی آسرا ہے تو خدا کا
مجھے اب قید سے آزاد کردے
نہیں مجھ میں بچا ہے کچھ سزا کا
لگا ذیشان دل تو بندگی میں
بھروسہ کیا ہے عمرِ بے وفا کا

64