ان کو ہمارے حال کی یارو خبر کہاں |
نظریں کہیں ہیں اور ہے ہم پر نظر کہاں |
بے ساختہ ہو بات مری بات اور ہے |
ورنہ زبان یار پہ میرا گزر کہاں |
جو کر ہی چکا ترک تعلق تو پھر اسے |
کیوں فکر ہو کہ ساتھ تھا جو ہمسفر کہاں |
چھوڑا تھا مجھ کو آپ ہی خود تو نے جان جاں |
منہ موڑتا میں آپ ہی ایسا جگر کہاں |
دل میں اگر ہو پیار تو لہجہ ہو پر اثر |
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں |
ہیں دوریاں ضرور مگر مجھ کو صاحبو |
ان کے حسیں خیال سے اب بھی مفر کہاں |
نفرت کا ہے اندھیر ہوا دن بھی شبِ تار |
ذیشان پھر نصیب میں روشن سحر کہاں |
معلومات