ان کو ہمارے حال کی یارو خبر کہاں
نظریں کہیں ہیں اور ہے ہم پر نظر کہاں
بے ساختہ ہو بات مری بات اور ہے
ورنہ زبان یار پہ میرا گزر کہاں
جو کر ہی چکا ترک تعلق تو پھر اسے
کیوں فکر ہو کہ ساتھ تھا جو ہمسفر کہاں
چھوڑا تھا مجھ کو آپ ہی خود تو نے جان جاں
منہ موڑتا میں آپ ہی ایسا جگر کہاں
دل میں اگر ہو پیار تو لہجہ ہو پر اثر
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
ہیں دوریاں ضرور مگر مجھ کو صاحبو
ان کے حسیں خیال سے اب بھی مفر کہاں
نفرت کا ہے اندھیر ہوا دن بھی شبِ تار
ذیشان پھر نصیب میں روشن سحر کہاں

88