کرنا اب کیا ہے بتا عشق میں خواہش کرکے
اپنے جذبات کی اس درجہ نمائش کرکے
تہمتیں خود ہی لگا کر ہے ستایا مجھ کو
اور اب رعب جماتا ہے یہ سازش کرکے
جب کبھی بات ہے کی تو نے وفا کی ساجن
تو سراہا ہے تجھے تیری ستائش کر کے
ہے چراغاں تو وجہ بھی کوئی لازم ہوگی
اتنا انجان نہ بن دل میں یوں تابش کرکے
چھوڑ بیکار کی باتوں کو مری بات تو سن
آ نہا لیتے ہیں جذبات کی بارش کرکے
میں نے کہنا تھا جو چاہت میں تری کہہ ڈالا
تو بڑھا بات کو اب اپنی سی کاوش کرکے
چاہتوں میں کٹے ٔ یہ سفرِ ذ ندگی ذیشاں
کرتا ہوں روز دعا اب یہ ہی نالش کرکے

216