آئینہ یار کا بنا خود کو
عشق میں ان کے تو مٹا خود کو
بے کلی پل میں ختم ہو تیری
ان کی یادوں میں تو گما خود کو
بے بسی عشق میں نہیں ہوتی
یہ سبق عشق کا پڑھا خود کو
حب دنیا میں الجھا دل تیرا
جلد کر اس سے بھی چھڑا خود کو
دل میں آنسو ں گداز لاتے ہیں
یاد میں ان کی تو رلا خود کو
شوق دیدار گر ہے ان کا تو
نیک خلوت سے تو سجا خود کو
گوشہ گوشہ ذیشاں ہوا روشن
غفلتوں سے زرا جگا خود کو
۔۔۔۔۔۔

61