وہ سمجھتے ہیں کیا جفا کرکے
ٹوٹ جائیں گے ہم وفا کرکے
بھو ل ہے ان کی بھول پائیں گے
مجھ کو یوں غم سے آشنا کرکے
خوش رہوں گے وہاں پہ تم کیسے
یاں پہ طوفان غم بپا کرکے
جرم کر کے بنے ہو تم منصف
چل دیۓ ہو کہاں سزا کرکے
جانے ملتا ہے کیا سکوں ان کو
بے قراری کو یوں سوا کرکے
توڑ دے دل جو , کوئی انساں ہے
غم بھلاتے ہیں یہ دوا کر کے
سوزش ہجر نے ذیشان تجھے
رکھ دیا ہاۓ دل جلا کر کے

122