مایوس ہو کے بیٹھے ہیں تاریک رات میں
اور اشک چھلکے پڑتے ہیں اب بات بات میں
کردیں نہ ہم پہ ٹھنڈی ہوائیں بھی کوئی وار
ٹائر جلا کے بیٹھے ہیں برفیلی رات میں
اے دل تو کیوں پریشاں ہے جب رب ہے ساتھ میں
وہ دیکھ لے گا سب کو جو دشمن ہیں گھات میں
مایوسیوں کو چھوڑ کر امید کس کے باندھ
پائے گا پھر جو چاہے تو وہ رب کی ذات میں
برباد کر کے کہتا ہے وہ ایک تم نہیں
ہیں درمیان ہم بھی حیات و ممات میں
لکھنے اگر تو بیٹھ گئے داستان غم
باقی رہے گی پھر نہ سیاہی دوات میں
وہ ایک دن یقین ہے پچتائے گا ذیشان
ہے انتظار آتا ہے پھر کب وہ مات میں

98