بخت میرا سنوار دو مرشد
مجھ کو اب تو نکھار دو مرشد
تیرا سائل ہوں تیرا دیوانہ
اپنا کہہ کر قرار دو مرشد
میں کہ کوئی نکما سگ ہی رہا
مہر دیکر وقار دو مرشد
مہر دیکر تم اپنے کتے کو
دیدو اب تو شمار دو مرشد
تیرے میرےمیں تکڑے کھاؤ کیوں
میری عادت سنوار دو مرشد
اک سکوں دل پہ میرے طاری ہو
دل کو ایسا قرار دو مرشد
راہ کھوٹی نہ ہو ترے دم سے
اک نظر ایسی مار دو مرشد
مہکے جاؤں خیال یار سے میں
ایسی اب تو بہار دو مرشد
تیری جانب ہی ہر خیال رہے
فکر کو یہ مدار دو مرشد
تیری مدحت مرا شعار رہے
دل میں الفت اتار دو مرشد
عمر بیتے تمھارے کوچے میں
بھیک میں اب دیار دو مرشد
ﮈوبتا جاتا ہوں میں عصیاں میں
واللہ مجھ کو کنار دو مرشد
جائے یوں نا ذیشان دنیا سے
صبغت اللہ کی دھار دو مرشد

84