عشق میں بے خودی ضروری ہے
خرد سے دوری بھی ضروری ہے
دل میں غم کروٹیں بدلتا ہو
پر لبوں پر ہنسی ضروری ہے
تیری چاہت کے بعد کہتا ہوں
اب تو یہ زندگی ضروری ہے
وصل ہو دو گھڑی ترا میرا
ساتھ میں تشنگی ضروری ہے
چند لمحوں کی داستان نہ ہو
عشق ہو دائمی ضروری ہے
قصہِ دل سناتے وقت ان کو
آنکھ میں بھی نمی ضروری ہے
دل کو آباد کرنے کے خاطر
کہتے ہیں عاشقی ضروری ہے
کام ذیشان کرنا ہے جو کرو
ساتھ میں بندگی ضروری ہے

126