قصیدہ لکھنے بیٹھا ہوں میں اصحابِ محبت کا |
علا مہ رضوی کا اور شاہ تراب الحق کی عظمت کا |
نبی کے عشق میں چمکے ہوئے پر نور تھے دونوں |
ہمیشہ پڑھتے تھے دونوں قصیدہ شا کی الفت کا |
وہ تھے کردار کے غازی جواں افکار ان کے تھے |
بھرا تھا دونوں میں اخلاص واللہ علم و حکمت کا |
عقیدہ ختمِ نبوت کے وہ سالار تھے واللہ |
کیا دونوں نے مل کے کام تھا ختمِ نبوت کا |
گئے ہیں بزم سونی کر کے خا دم و تراب الحق |
ہوا نقصان ہے کتنا بڑا یہ اہل سنت کا |
محبت دونو ں میں کیوں کر نہ ہوتی واسطہ یوں تھا |
کہ اک تھے آل کے خادم تو دوجا ان کی عترت کا |
محاذِ ختمِ نبوت پہ فرماتے تھے شا صاحب |
عطا اس کام میں منصب ہے خادم کو امامت کا |
جلائی عشق احمد کی مشعل ہر گام دونوں نے |
سکھایا قوم کو بس کام آقا سے محبت کا |
کہا کرتے تھے دونوں ہی سنو اے سنیوں سمجھو |
نبی کے دشمنوں سے کیا علاقہ ہے مروت کا |
محبت کا تقاضہ بھی تھا اور کہنا حسن کاتھا |
لکھا ذیشان نے بھی اک قصیدہ ان کی الفت کا |
معلومات