جیسا کہ کوئی جام کے زیرِ اثر رہے |
ہم لوگ تیرے نام کے زیرِ اثر رہے |
یہ بولتا نہیں ہے مگر چاہتا تو ہے |
کے چاند تیرے بام کے زیرِ اثر رہے |
جو تیرے ساتھ جاؤں کسی جھیل تک چلوں |
تو عمر ایسے گام کے زیرِ اثر رہے |
اک گیلری میں بس رہے ہیں وہ بہار دن |
جو بھی تمہاری شام کے زیرِ اثر رہے |
ہم نے ترے خیال سے پل بھر کو بات کی |
شب بھر اسی کلام کے زیرِ اثر رہے |
معلومات