جیسا کہ کوئی جام کے زیرِ اثر رہے
ہم لوگ تیرے نام کے زیرِ اثر رہے
یہ بولتا نہیں ہے مگر چاہتا تو ہے
کے چاند تیرے بام کے زیرِ اثر رہے
جو تیرے ساتھ جاؤں کسی جھیل تک چلوں
تو عمر ایسے گام کے زیرِ اثر رہے
اک گیلری میں بس رہے ہیں وہ بہار دن
جو بھی تمہاری شام کے زیرِ اثر رہے
ہم نے ترے خیال سے پل بھر کو بات کی
شب بھر اسی کلام کے زیرِ اثر رہے

148