| دھڑکن کے آس پاس کی کوئی جگہ بھی دو |
| تم نے مدد تو بھیج دی لیکن دعا بھی دو |
| چپ چاپ بیٹھنے سے نکلتا نہیں ہے کام |
| بیٹھے ہو اس کے در پہ تو اس کو صدا بھی دو |
| ہے پھول تیرے ہاتھ میں کالر ہے میرے پاس |
| تم دیکھ تو رہی ہو مگر اب سجا بھی دو |
| لکھنا ہے اپنے دل پہ تو قائم لکھو ہمیں |
| لیکن یہ کیا کہ یوں لکھو اور یوں مٹا بھی دو |
| الماریاں اداس ہیں تم ان کے واسطے |
| اپنی بہار بھیج دو یعنی قبا بھی دو |
معلومات