| مت پوچھ تیرے بعد، کیا کیا جدا ہوا |
| یہ سب سے پہلی بات کہ رستہ جدا ہوا |
| میں نے تو جب سے دیکھا ہے اک مطمئن فقیر |
| اس دن کا میرے ہاتھ سے کاسہ جدا ہوا، |
| اس کو جو آج پینے کی فرصت نہیں ملی |
| کافی اداس، چائے سے نشہ جدا ہوا |
| ہونٹوں پہ بات، آنکھ میں آنسو لرز گئے |
| یعنی وہ میرے ہاتھ سے مرتا جدا ہوا |
| ہر بار تو ٹرین سے جاتا نہیں کوئی |
| اک ہلتا ہاتھ گر گیا, رکشہ جدا ہوا |
معلومات