کھڑے ہیں ساتھ لگ کے اپنے یار کے مزار سے |
نہیں ہے اب خزاں کا ڈر نہیں شغف بہار سے |
جو میرا ہاتھ دل پہ ہے تو اسکا ہاتھ آنکھ پر |
ہمیں تو لڑنا پڑ رہا ہے عشقِ بے مہار سے |
دوبارہ کب اڑیں گے ایک وصل کی اڑان پر |
دوبارہ کب نکل سکیں گے ہجر کے مدار سے |
وہ مجھ کو سوچنے لگا تو اس کو نیند آ گئی |
پہ میری نیند اڑ گئی ہے یاد کی پھوار سے |
سنو قرار ہے وہ شے کہ جس کا جانا غم بنے |
سو اب فرار چاہتے ہیں ہم کسی قرار سے |
معلومات