اگر وہ یاد ہونے لگ پڑے گا
تو دل آباد ہونے لگ پڑے گا
ترا خوشبو یہاں تھوڑے دنوں میں
بدن ایجاد ہونے لگ پڑے گا
اگر میں غم نہیں روکوں تو یہ غم
مرا ہمزاد ہونے لگ پڑے گا
یہاں جس دن ہماری نیند ٹوٹی
وطن آزاد ہونے لگ پڑے گا
تمہاری ذات سے رشتہ نہ ٹوٹے
سخن بے داد ہونے لگ پڑے گا
ترے جانے کا کوئی دکھ نہیں ہے
یہ تیرے بعد ہونے لگ پڑے گا

126