پھر کسی کی یاد میں آنسو بہانے لگ پڑے
کار میں نصرت فَتح کے گیت گانے لگ پڑے
کینوس پر پھول کی تصویر آدھی رہ گئی
ہم تری دیوار پر تتلی بنانے لگ پڑے
آسمانوں کے نگر میں جب ستارے آ گئے
جو جگہ اچھی لگی پکنک منانے لگ پڑے
سوچتا ہوں اس نمو پہ کونسا چرچا کروں
میرے سارے مسئلے اب سر اٹھانے لگ پڑے
آسمانوں میں ستارے میری آنکھوں میں دیے
جو نہی تیری بات آئی ٹمٹمانے لگ پڑے

0
144