دن تھک گیا تو شام میں تبدیل ہو گیا |
منظر اٹھا اور آنکھ میں تحلیل ہو گیا |
مرہم بنے یہ شوق تھا بیمار کا سو پھر |
اک ہاتھ کھل کے شوق کی تکمیل ہو گیا |
مسکن بنا رکھا ہے تو نے یار اس لئے |
یہ دل ترے قیام سے قندیل ہو گیا |
پھولوں کو خود پہ ناز سے جب فرصتیں ملیں |
تب تک ببول عشق کی تمثیل ہو گیا |
یادیں نکالتا ہے برابر سویر شام |
جیسے ہمارا ذہن بھی زنبیل ہو گیا |
معلومات