دن تھک گیا تو شام میں تبدیل ہو گیا
منظر اٹھا اور آنکھ میں تحلیل ہو گیا
مرہم بنے یہ شوق تھا بیمار کا سو پھر
اک ہاتھ کھل کے شوق کی تکمیل ہو گیا
مسکن بنا رکھا ہے تو نے یار اس لئے
یہ دل ترے قیام سے قندیل ہو گیا
پھولوں کو خود پہ ناز سے جب فرصتیں ملیں
تب تک ببول عشق کی تمثیل ہو گیا
یادیں نکالتا ہے برابر سویر شام
جیسے ہمارا ذہن بھی زنبیل ہو گیا

84