موسم پہ اختیار ہے، حیرت کی بات ہے۔
اب تک وہاں بہار ہے، حیرت کی بات ہے۔
اس کو جو مجھ سے پیار ہے، وہ دفعتاً ہے اور
غزلوں پہ استوار ہے، حیرت کی بات ہے
ہم کو نہیں ہے خود پہ بھی لیکن تجھے یہاں۔
لوگوں پہ اعتبار ہے، حیرت کی بات ہے۔
اک حال تک بھی ٹھیک سے پوچھا نہیں ہمیں۔
تو کیسا غم گسار ہے، حیرت کی بات ہے۔
یہ تو کہ جس کو پیار کا مطلب نہیں پتہ
تو بھی وفا شعار ہے، حیرت کی بات ہے

109