موسم پہ اختیار ہے، حیرت کی بات ہے۔ |
اب تک وہاں بہار ہے، حیرت کی بات ہے۔ |
اس کو جو مجھ سے پیار ہے، وہ دفعتاً ہے اور |
غزلوں پہ استوار ہے، حیرت کی بات ہے |
ہم کو نہیں ہے خود پہ بھی لیکن تجھے یہاں۔ |
لوگوں پہ اعتبار ہے، حیرت کی بات ہے۔ |
اک حال تک بھی ٹھیک سے پوچھا نہیں ہمیں۔ |
تو کیسا غم گسار ہے، حیرت کی بات ہے۔ |
یہ تو کہ جس کو پیار کا مطلب نہیں پتہ |
تو بھی وفا شعار ہے، حیرت کی بات ہے |
معلومات