یہ کس نے آج صحرا کو پانی پلایا ہے
ٹیلے پہ تپتی ریت نے اک دل بنایا ہے
پھولوں کو یاد آ گئی تتلی کی چھیڑ چھاڑ
بادِ صبا نے باغ میں نغمہ سنایا ہے
ایسے میں تجھ کو یاد یہاں کیا کرے کوئی
دھرتی پہ روزگار نے اودھم مچایا ہے
ہم سے بہل نہیں رہا طفلِ غمِ فراق
اور تجھ کو آج چاند نے کرتب دکھایا ہے
جنگل میں پڑ رہی ہے محبت کی داغ بیل
جگنو نے فاختہ کو بھی رستہ بتایا ہے
ایسے نہیں بنا ہوا دریا مرا غلام
میں نے تمہارے عشق کا بیڑہ اٹھایا ہے

316