پیدا خیالِ یار کا ساماں کئے رکھا
دل نے ہمارے درد کا درماں کئے رکھا
چہرے پہ ذرہ بھر بھی تھکاوٹ نہ آنے دی
ہم نے تمہارے عشق کو آساں کئے رکھا
بوسے کے اردگرد لکیروں کو کھینچ کر
ماتھے پہ اک خراج کو چسپاں کئے رکھا
ہم نے مکاں میں پھول بھی لائے تو سوچ کر
تم نے یہاں پہ دشت کو مہماں کئے رکھا
جس نے بھی داد دینی تھی لکھے پہ داد دی
میں وہ نہیں کہ سوچ کو عریاں کئے رکھا

83