تیری حرمت پہ واروں سخن، اے وطن!
تو مری آرزو کا بدن، اے وطن!
تیری گلیوں کو "دِل" سے مزین کروں
اِن کے شایاں نہیں نسترن، اے وطن!
آج کہسار و گلزار و دریا ترے
ہیں بہاروں پہ سایہ فگن ،اے وطن!
تیرے دامن کو پکڑے یہ بس میں نہیں
آگ جتنے بھی کر لے جتن، اے وطن!
تھک گئے تو تری سیر کو چل دیئے
اور جاتی رہی سب تھکن، اے وطن!
ایک دن سارے عالم پہ چھا جائے گا
تیرے پرچم کو حاصل ہے فن، اے وطن!
یہ بھی تیرے تصور کا اعجاز ہے
مسکرانے لگا ہے سخن، اے وطن!

344