سوچا جو تیرا نام طبیعت سنبھل گئی
لیکن ترے خیال میں چائے ابل گئی
اب عشق بھی زمیں پہ بجاتا ہے تالیاں
اک وصل کے مدار میں پہلی شٹل گئی
کہہ دو یہ اپنے خواب سے چھکے پہ زور دے
اب دور تیز آ گیا ،سنگل ڈبل گئی
اے دوست تیری آنکھ میں یوں انہماک سے
دیکھا تو کیمرے کی بھی نیت بدل گئی
آنچل گلے میں ڈال کے آئی وہ ڈیم پر
ٹربائنوں کے ہاتھ سے بجلی پھسل گئی

92