اگر تیکھا نہیں کہتے تو سادہ باندھ سکتے ہیں
مگر ہم ان سے ملنے کا ارادہ باندھ سکتے ہیں
ہمارے ہاتھ آیا ہے فریبِ دوستی سو ہم
تمہیں اب اپنے پہلو سے زیادہ باندھ سکتے ہیں
بساطِ جان پر بیٹھے ہوئے اک بادشہ چہرے
تری چالوں سے ہم دل کا پیادہ باندھ سکتے ہیں
ملنگوں کے نہیں شایاں کہ وہ ہر در پہ بیٹھے ہوں
اگر سرکار چاہیں تو کشادہ باندھ سکتے ہیں

157