| اس کو نہیں ہے ڈر کسی چشمِ سیاہ کا |
| یہ دل تو اک ملنگ ہے اُس خانقاہ کا |
| میں تو یہاں پہ رند ہوں ،مستی میں مست ہوں |
| زاہد سے جا کے پوچھ لیں مطلب گناہ کا |
| جس آنکھ نے سکھائی ہے مصرع گری ہمیں |
| حصہ اُسے بھی جاتا ہے شعروں پہ واہ کا |
| اب مجھ میں اور دشت میں آ کر تمیز کر |
| جھگڑا بنا ہوا ہے یہاں خوامخواہ کا |
| جتنے گلاب ہوتے تھے اتنے نہیں رہے |
| نقشہ بدل گیا ہے مری خواب گاہ کا |
| اے اہلِ غور و فکر دعائیں دو چور کو |
| کاسہ اٹھا کے لے گیا ہے بادشاہ کا |
معلومات