مرے بے ربط جملوں کو توازن تک رسائی دے
ترا ہنسنا تخیل کو غزل سے آشنائی دے
گلے میں ہار سمجھوں کا تمہاری شوخ بانہوں کا
اگر دینا ہے تحفے میں مجھے کچھ بھی تو ٹائی دے
مرے دلکش کی خوبی ہے، عنایت کرتا رہتا ہے
کبھی بوسوں کے گل دستے ، کبھی دستِ حنائی دے
ترا ملنا بتایا ہے، مجھے غم میں افاقے کو
ترے ہوتے ہوئے مجھ کو مسیحا کیوں دوائی دے
قفس کے پار کی دنیا، کشائش آسمانوں کی
وہ کیسے بھول سکتا ہے جسے روزن دکھائی دے

0
92