یہ جو یاقوت ہونٹوں پر سجاوٹ ڈالی جاتی ہے
ہماری نیند کے آگے رکاوٹ ڈالی جاتی ہے
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اب خواہش چھپانے کو
کسی معصوم چہرے پر دکھاوٹ ڈالی جاتی ہے
تمہارے شہر میں یوں بھی گلے ملنے سے ڈرتے ہیں
یہاں مل کر کلیجوں میں کھچاوٹ ڈالی جاتی ہے
یہ دل والوں کی بستی ہے یہاں پاؤں میں رستہ نئیں
یہاں غم کے تناسب سے تھکاوٹ ڈالی جاتی ہے
ترے دل کو دعا دیتا ہوں ایسے پل میں لٹنے کی
کہ جب تتلی میں پھولوں سے لگاوٹ ڈالی جاتی ہے

181