یہ جو یاقوت ہونٹوں پر سجاوٹ ڈالی جاتی ہے |
ہماری نیند کے آگے رکاوٹ ڈالی جاتی ہے |
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اب خواہش چھپانے کو |
کسی معصوم چہرے پر دکھاوٹ ڈالی جاتی ہے |
تمہارے شہر میں یوں بھی گلے ملنے سے ڈرتے ہیں |
یہاں مل کر کلیجوں میں کھچاوٹ ڈالی جاتی ہے |
یہ دل والوں کی بستی ہے یہاں پاؤں میں رستہ نئیں |
یہاں غم کے تناسب سے تھکاوٹ ڈالی جاتی ہے |
ترے دل کو دعا دیتا ہوں ایسے پل میں لٹنے کی |
کہ جب تتلی میں پھولوں سے لگاوٹ ڈالی جاتی ہے |
معلومات