کوئی اس شان سے پیتا رہا ہے
کہ ساقی جام ہی بھرتا رہا ہے
کسی کے وصل کے ڈنکے بجے ہیں
کسی کے ہجر کا چرچا رہا ہے
یہاں اک شخص کو ہم ڈھونڈتے ہیں
جسے وہ آدمی ملتا رہا ہے
تمہاری تاک میں آنکھیں رہی ہیں
ہماری تاک میں دھوکہ رہا ہے
یہ اک کمرہ کہ جس میں روشنی ہے
یہاں اک آئینہ شرما رہا ہے

155