اے فضائے شامِ دسمبری مجھے اس قدر نہ ملول کر |
کہ میں زندہ دل سا ہوں آدمی کوئی اور سنگ سمیٹ لوں |
کوئی لمحہ ایسا ہو خواب سا ترے رنگ آئیں نظر مجھے |
تو میں روک کر کسی موڑ پر ترے سارے رنگ سمیٹ لوں |
تری شوخیاں ترے حوصلے سبھی آ کے مجھ سے یہ کہہ گئے |
میں جو سادہ سادہ سا شخص ہوں ترا انگ انگ سمیٹ لوں |
وہ کہ ایسا کونسا اسم ہے جو تمہاری زلفیں سنوار دے |
وہ کہ ایسا کونسا رقص ہے جو کہ میں ملنگ سمیٹ لوں |
تو بھی کافی پی پی کے تھک گئی میں بھی چائے پی پی کے تھک گیا |
تو بھی کوئی ڈھنگ کا کام کر میں بھی کوئی ڈھنگ سمیٹ لوں |
معلومات