| منظر بدل گیا ہے نظارہ نہیں گیا |
| یہ دھرتی پھر گئی ہے، ستارہ نہیں گیا |
| دریا کے ساتھ ساتھ کنارا نہیں گیا |
| کشتی سے ہم کو پار اتارا نہیں گیا |
| اک بار آ گیا تو دوبارہ نہیں گیا |
| مجھ سے وہ بار بار پکارا نہیں گیا |
| جس کو کسی کے ساتھ بہک کر ملایا تھا |
| اب تک بھی اُس نظر کا خسارا نہیں گیا |
| کیسے بچھڑ کے سال یہاں کاٹتے ہیں لوگ |
| ہم سے تو ایک دن بھی گزارا نہیں گیا |
| کہتے ہیں یہ قمیض کے ٹوٹے ہوئے بٹن |
| تجھ سے ہمارا ساتھ سنوارا نہیں گیا |
معلومات