پوشاک ہو کوئی یا کوئی اوڑھنی رہے
کچھ تو ہمارے گھر میں تری روشنی رہے
منسوب ہو رہی ہے کسی منفرد سے وہ
اور یہ بھی چاہتی ہے مجھے چاہتی رہے
ایسے نہیں ہیں تاک میں عشوہ زنوں کے دل
جیسے ہماری تاک میں یہ بے دلی رہے
پھولوں سے آ کے مل رہی ہیں تتلیاں مگر
ہم ایک ساتھ رہ کے یہاں اجنبی رہے
دھرتی پہ بڑھ رہا ہے تنفر سو دیکھئے
اب خاک و خوں رہے کہ یہاں آدمی رہے

88