دیکھ! انکار پر نہیں ملتا
عشق، اصرار پر نہیں ملتا
یہ بھی انعام ہے کہ بندوں کو
رزق کردار پر نہیں ملتا
ایک نقشہ تھا دل محلے کا
اب وہ رخسار پر نہیں ملتا
ہاں کوئی کار ہو تو مل جائے
دل تو بیگار پر نہیں ملتا
میری کوشش ہے تم سمجھ جاؤ
ہوش دستار پر نہیں ملتا
ایک بھی گھونٹ تیرے ہونٹوں سے
ہم کو افطار پر نہیں ملتا
آج ڈھونڈیں تو خون عاشق کا
ہجر کی دھار پر نہیں ملتا

125