ایک چہرے کی پرستار بھی ہو سکتی ہے
آنکھ، آنکھوں کی طلب گار بھی ہو سکتی ہے
پہلے ہوتا تھا کہ صحرا نہیں لیتا تھا کوئی
آج کل دشت پہ تکرار بھی ہو سکتی ہے
یوں سہولت بھی نہیں دے کہ میں ڈر جاتا ہوں۔
یہ سہولت ترا معیار بھی ہو سکتی ہے۔
دل کا دروازہ کھلا دیکھ کہ دوڑا مت جا.
اس کے آگے کوئی دیوار بھی ہو سکتی ہے۔
تو جو کرتا ہے بہت راز کی باتیں اُس سے
بچ کے رہنا کہ وہ اخبار بھی ہو سکتی ہے

113