ہم سے دیوار کی خواہش بھی مٹائی نہ گئی |
تیری تصویر بنائی تو لگائی نہ گئی |
میں نے جس دن سے ترے ہاتھ پکڑنا چاہے |
میرے کانوں سے زمانے کی دہائی نہ گئی |
میں نے سوچا تھا پکاروں نہیں تجھ کو لیکن |
تجھ کو دیکھا ہے تو آواز دبائی نہ گئی |
لوگ برسوں کی رفاقت کو چھپا لیتے ہیں |
ہم سے دو دن کی شناسائی چھپائی نہ گئی |
ہم نے سوچا تھا ملیں گے تو وہ مل جائیں گے |
ان سے مل مل کے بھی دیکھا پہ جدائی نہ گئی |
ہم نے برسوں کی مشقت سے تمہارے دل پر |
ایک ہی نظم بنائی تھی سنائی نہ گئی |
لاکھ مایوسی کی ڈائن نے چھڑائی لیکن |
دستِ عاشق سے دعاؤں کی کلائی نہ گئی |
ایک دروازے پہ دستک ہی نہ دی سوچ لیا |
ایک نمبر پہ کبھی کال ملائی نہ گئی |
معلومات