عالم ہے اُن کے چہرے پہ یوں اضطراب کا
جیسے ہمارے ہاتھ میں ہو دل جناب کا
پھیلا دیا چمن میں تعصب ببول نے
ورنہ میں تم کو بھیجتا تحفہ گلاب کا
ممکن ہے، یہ زمین اگر ہم سفر نہ ہو
چہرہ اتر نہ جائے کہیں آفتاب کا
پہلے بھی نازنین کہاں کم تھی ناز میں
اب گُر بھی آگیا ہے اسے اجتناب کا
کیا کیا تجھے پسند ہے اور کیا نہیں پسند
کس پر کھلا ہے راز ترے انتخاب کا

92