تڑپ کہ اپنے حال کا سنا لیا تو کیا ہوا
جو ہم نے چھت پہ چاند کو بلا لیا تو کیا ہوا
سڑک کے ساتھ کھل رہا تھا ایک پھول تو اسے
کسی حسین زلف نے سجا لیا تو کیا ہوا
کسی کے غم میں نیند سے بگڑ گئی تو کیا کریں
کسی کے غم کو شان سے منا لیا تو کیا ہوا
وہ راز دان تو نہیں تھا، بس مرا طبیب تھا
سو میں نے اپنے زخم کو دکھا لیا تو کیا ہوا
ہماری ایک عمر اس کے پاؤں میں پڑے کٹی
جو اس نے آج ساتھ میں بٹھا لیا تو کیا ہوا

126