اے مری زمیں بتا، آسماں کو کیا ہوا؟
چاندنی کہاں گئی، کہکشاں کو کیا ہوا؟
سوچتے ہیں بیٹھ کر کہ دشمنوں سے کیا کہیں
گھاؤ کیوں نہیں بھرے، مہرباں کو کیا ہوا؟
یار سامنے ہے اور مجھ سے لفظ کھو گئے
بولنے کا وقت ہے اب زباں کو کیا ہوا؟
ہم نے آدھی زندگی اس طرح گزار دی
اُس فلاں نے کیا کہا، اُس فلاں کو کیا ہوا
یاد میں نہیں رہا کچھ بھی وصل کا سماں
وصل تو فریب تھا ،پر گماں کو کیا ہوا؟

114