Circle Image

Dr Shahid Siddique

@Shahid

میری اتنی سی شناسائی ہے
تو خدا ، دل مرا ہرجائی ہے
میں تو دیوانہ ہوا جاتا ہوں
ہر سو رخ یار کا زیبائی ہے
پیار بدنام بہت ہے جگ میں
اس کا انجام بھی رسوائی ہے

0
3
اک روشنی اندھیرے میں ، کوئی سویر دے
سورج کرن میں اپنی مجھے بھی بکھیر دے
چھٹتا ہے زلف میں ہوا کب قید آپ کی
اب عمر میری ساری قفس میں ادھیڑ دے
الفت ہے نخل آپ کی ، دنیا کے دشت میں
دے کے وفا میں ہجر ، شجر تو اکھیڑ دے

0
2
من میں دیوار اٹھانے والا
رنج دل کا نہیں جانے والا
اب نہیں آتا ہمیں دیکھو تو
اک ہنر ہنسنے ، ہنسانے والا
ہے ختم جگ سے تعلق اپنا
رشتہ ہر ملنے ، ملانے والا

0
4
ملکی آئین ہواؤں میں اچھالا جائے
اک عدالت سے ، عدالت کو نکالا جائے
پھینک کے تیل کسی جلتے ہوئے مسکن پر
پھول سے چہرے پہ تیزاب بھی ڈالا جائے
توڑ کے پیار کی زنجیر پرونے والی
پھر نہ سیلاب سمندر کا سنبھالا جائے

0
6
روشن فلک کا چاند ، ستارا نہیں ہوا
اے دل تجھے جو عشق دوبارہ نہیں ہوا
سچ ہے عذاب تھی یہ بنا تیرے زندگی
سچ ہے ترے بغیر گزارا نہیں ہوا
تنہائی سے ہی دوستی اپنی رہی سدا
دل کو بھی ساتھ جگ کا گوارا نہیں ہوا

13
جان سے جاں کو گزرتا دیکھے
وہ بھی تو گل کو بکھرتا دیکھے
چپ کو سمجھے نہ مری لا حاصل
چڑھتے دریا کو اترتا دیکھے
دیکھے آنکھوں میں حسیں وہ دنیا
پھر زمانے کو ٹھہرتا دیکھے

0
7
جان سے جاں کو گزرتا دیکھے
وہ بھی تو گل کو بکھرتا دیکھے
سمجھے چپ کو نہ مری لا حاصل
چڑھتے دریا کو اترتا دیکھے
دیکھے آنکھوں میں حسیں وہ دنیا
پھر زمانے کو ٹھہرتا دیکھے

0
12
گر فسانوں میں فسانہ ہوتا
جینے کا اپنے بہانہ ہوتا
یاد کرتے نہ اسے پھر ہم بھی
بس میں گر انکو بھلانا ہوتا
ایک امید ہمیں بھی ہوتی
شہر میں گر جو ٹھکانہ ہوتا

0
14
من کا اک خالی مکاں چھوڑ گیا
لے گیا سوچ ، گماں چھوڑ گیا
داغ سینے کے دکھاؤں میں کسے
اس کا ہر لفظ نشاں چھوڑ گیا
شکوہ ہو کس سے شکایت ہو کیا
درد وہ آہیں فغاں چھوڑ گیا

1
22
چپ چاپ سمندر ہے ، مرے دل کا نگر بھی
زخموں سے بدن چور ہے ، گھر بار ، جگر بھی
ظاہر ہے حقیقت بھی دلوں پر ، اے ستم گر
گلیوں میں ہے رسوا مرا خورشید ، سحر بھی
زنداں میں اندھیرا ہے تو کیا فکر ہے تجھ کو
ڈوبیں گے ستارے بھی مرے شمس و قمر بھی

0
1
21
گلاب ، خوشبو ، وفائیں ، ادا بدن میں ملے
فلک کا چاند مجھے شب کے پیرہن میں ملے
سراب جس میں بجھائیں زمیں کی تشنہ لبی
نشہ شراب کا باتوں میں وہ سخن میں ملے
بہکتا ہے کسی ساقی کے در پہ جیسے مے کش
مہک حنا کی کوئی مجھ کو بانکپن میں ملے

0
18
طوفان میں دریا کا کنارہ نہیں ہوتا
قسمت کا کوئی ساتھ ستارا نہیں ہوتا
ہوتے نہیں اس کھیل میں موسم بھی موافق
جیتا کوئی اس دشت میں ہارا نہیں ہوتا
ملتے ہی نہیں یار محبت میں مسلسل
بیتی ہوئی یادوں سے گزارا نہیں ہوتا

0
18
الفت میں زخم شوخیٔ تحریر بن گئے
آنسو وفا میں آپ کی ، تصویر بن گئے
قاصد کو دیکھ کے گئی جو سہم سی نظر
شاخوں پہ پھول درد کی تفسیر بن گئے
خوابوں کی ڈھونڈتے رہے تعبیر ہم مگر
ٹوٹے جو سلسلے جڑے تعذیر بن گئے

0
11
کچھ ڈوبتے ہوؤں کو سہارا نہیں ملا
طوفاں میں کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
امید تھی سبھی کو حقیقت میں چاند سے
سر شام روشنی کو ستارہ نہیں ملا
ہم بھی گلاب دیں گے عوض میں گلاب کے
یہ کہہ کے شخص ہم کو دوبارہ نہیں ملا

0
12
کچھ ڈوبتے ہوؤں کو سہارا نہیں ملا
دریا میں کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
امید تھی سبھی کو حقیقت میں چاند سے
سر شام روشنی کو ستارہ نہیں ملا
ہم بھی گلاب دیں گے عوض میں گلاب کے
یہ کہہ کے شخص ہم کو دوبارہ نہیں ملا

0
9
جگ کی پہچان کہاں ہے کوئی
مجھ سا نادان کہاں ہے کوئی
رو پڑے دیکھ کے پتھر جس کو
غم سے انجان کہاں ہے کوئی
آنکھ اشکوں سے ہو خالی جس کی
من وہ سنسان کہاں ہے کوئی

0
14
ایک تصویر محبت کی بنا دی جاتی
دور ویرانوں میں جو شمع جلا دی جاتی
ہر بری رسم زمانے کی گوارہ کر کے
روٹھنے والے کو گر ہنس کے دعا دی جاتی
پھوٹتی آگ کی چنگاری اندھیروں سے بھی
سحر کے آنے کی جو آس بڑھا دی جاتی

16
اپنے ہونے کا نشاں چھوڑ گیا
غم کا قصہ وہ زباں چھوڑ گیا
لکھ کے اک سادہ ورق میرے لئے
وہ چراغوں میں دھواں چھوڑ گیا
کر گیا سونی سی دہلیز کوئی
درد ، خالی وہ مکاں چھوڑ گیا

0
13
در تو رحمت کا کوئی کھول ، چھپا لے مولا
اس سے پہلے کہ اٹھائیں وہ ، اٹھا لے مولا
ایک عزت کی گزاری ہے جوانی میں نے
یہ بڑھاپا نہ مرا رول ، بلا لے مولا

0
16
راز آنچل میں چھپائے بیٹھے ہیں
مجھ کو مجھ ہی سے چرائے بیٹھے ہیں
ڈس رہے ہیں وہ نشیلے نینوں سے
ہم گلے ان کو لگائے بیٹھے ہیں
بے خبر ہیں مے کشوں سے مے و سبو
ہوش ساقی بھی گنوائے بیٹھے ہیں

0
14
مضطرب رہنا میری فطرت ہے
رات ، دن جلنا میری قسمت ہے
دیکھ کے رو نہ کرچیاں میری
ٹوٹنے کی مجھے تو عادت ہے
ہے کسے غم بکھر کے جانے کا
ہے غنیمت یہ تو سلامت ہے

0
16
ہم بھی خوشبو کا سفر دیکھیں گے
پیار میں کر کے سحر دیکھیں گے
جن سے روشن ہو گلی ، کوچے ، در
چاندنی شب ، وہ قمر دیکھیں گے
گیت گاتی ہو جہاں پر بلبل
گلستاں گل وہ شجر دیکھیں گے

0
18
ہو کے دیپک بھی نبھائی ہے ہوا سے میں نے
رابطے توڑے ہیں سب اپنے قضا سے میں نے
گل کی پتی سے کٹایا ہے جگر بھی اپنا
زخم الفت کے کریدے ہیں دوا سے میں نے
دل نے دیکھے ہیں کئی دشت وفا کے دھوکے
پایا ہے لطف جفاؤں کا سزا سے میں نے

0
17
سینے میں لگی آگ کو دھکائے ہوئے ہیں
گلشن میں مرے پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں
ہنگامہ ہے کوچے میں محبت کے نمایاں
اور ہم ہیں کہ آزردہ سے جھنجھلائے ہوئے ہیں
آنکھوں میں تصور ہیں ، بسی رات ، جھروکے
پر چاند ستارے سبھی گہنائے ہوئے ہیں

0
29
ایک اجلا شباب لگتا ہے
روپ وہ لا جواب لگتا ہے
اس کی آنکھوں کا ہو تصور کیا
کھلتا چہرہ گلاب لگتا ہے
نقش اس کا ہے دل پہ رنگیں سا
گو کہ سادہ کتاب لگتا ہے

0
20
منزل سے آشنا تھا جو وہ نقش پا ملا
راہوں میں پل صراط کے اک راستہ ملا
من کو ملی ہے روشنی سورج کی ہر کرن
دل کے نگر میں ہم کو کوئی رہنما ملا
تجھ سے شکایتیں کیا ، تجھ سے کریں گلہ
چل کے تمہارے ساتھ ہمیں حوصلہ ملا

0
23
سب چاہتیں یہ ٹوٹا ہوا جام کس کو دیں
دنیا کی بے وفائی کا الزام کس کو دیں
سانسوں کی ڈور پر ہے رواں نام یار کا
دے کے لہو چراغ کو اب شام کس کو دیں
ساری کٹی ہے عمر یونہی جاگتے ہوئے
آنکھوں کے خواب پھر ترے پیغام کس کو دیں

0
17
جیسے طوفان ہوں سر سے گزرے
ایسے ہم دل کے نگر سے گزرے
رات تھی وہ بہت ہی مشکل
جس بھی ہم راہ گزر سے گزرے
ہم نہ پہچان سکے چہرے سب
لوگ ہی لوگ نظر سے گزرے

0
16
خاک ہو جائیں ، ہوا ہو جائیں
سب محبت میں فنا ہو جائیں
رات ڈوبے ، نہ سحر پھر نکلے
وقت سے لمحے خفا ہو جائیں
گل سے خوشبو بھی بچھڑ سی جائے
رنگ موسم سے جدا ہو جائیں

0
29
دل کی دھڑکن یہی دہائی دے
تیرا رستہ مجھے دکھائی دے
لمس محسوس ہو مجھے تیرا
میں پکاروں جو ، تو سنائی دے
تو سنے سانس کی روانی میں
چاہتیں ایسی آشنائی دے

0
23
دشت و صحرا کا سفر جاتا نہیں
کی دعاؤں کا اثر جاتا نہیں
لکھ دی ہے قسمتوں نے میری تڑپ
اک رکا درد جگر جاتا نہیں
اب مسیحا بھی کیا میرا کرے
آنکھ سے دیدۂ تر جاتا نہیں

0
19
ہے روگ ایسا کہ اب چارہ گر نہیں ملتا
ترے بغیر سکوں ، ہم سفر نہیں ملتا
تڑپ رہی ہے جبیں بے بسی میں سجدے کو
وفا کا سلسلہ اک ، سنگ در نہیں ملتا
یقین ہم کو نہیں ہے غزالی آنکھوں پر
تجھے جو ڈھونڈ دے وہ ، نامہ بر نہیں ملتا

0
28
اک حقیقت نہیں تھی خواب تھے کچھ
وہ محبت نہیں سراب تھے کچھ
چوٹ جن سے لگی تھی ہم کو وہ
تیکھے کانٹے نہیں گلاب تھے کچھ
عشق جس کے لئے چڑھے سولی
درد دل کا تھا ، احتساب تھے کچھ

0
20
راہوں میں کوئی جلتے چراغوں کو بجھا دے
منصور کو پھر سے نہ کوئی سولی چڑھا دے
بے بس نہ ہمیں کر دے ارادوں میں ہمارے
اک بیچ دلوں کے نہ وہ دیوار اٹھا دے
تو داغ چھپا سینے کا ، دے حوصلہ سب کو
رکھ زخموں پہ مرہم ، گل عریاں کو قبا دے

0
17
خاک ہو جائیں ، ہوا ہو جائیں
سب محبت میں فنا ہو جائیں
رات ڈوبے ، نہ سحر پھر نکلے
وقت سے لمحے خفا ہو جائیں
گل سے خوشبو بھی بچھڑ سی جائے
رنگ موسم سے جدا ہو جائیں

0
17
خاک ہو جائیں ، ہوا ہو جائیں
ہم محبت میں فنا ہو جائیں
رات ڈوبے ، نہ سحر پھر نکلے
وقت سے لمحے خفا ہو جائیں
گل سے خوشبو بھی بچھڑ سی جائے
رنگ موسم سے جدا ہو جائیں

0
16
دکھوں کا ہے قلم تحریر انساں
خطا کی ہے سزا تعذیر انساں
فسانہ ہے کبھی قصہ ، کہانی
نرالی ہے کبھی تصویر انساں
حقیقت ہے مگر کیسی عجب یہ
کرے انسان کی تحقیر انساں

0
21
یقین دریا سمندر سراب وہ بدلے
ندی ہے ہجر کی ہر سو چناب وہ بدلے
بیاں کرے نہ حقائق حساب وہ خود سے
درس وفا کے ، نہ پڑھی کتاب وہ بدلے
سکھا دو اس کو پرانے رموز الفت کے
محبتوں کا نہ دل کا نصاب وہ بدلے

0
18
دشت ، دریا ، سراب لگتے ہیں
سرد موسم عذاب لگتے ہیں
گیسوئے یار سے چراغوں تک
دن محبت کے خواب لگتے ہیں
اک قیامت کا پیش خیمہ ہے
آئینے بے حجاب لگتے ہیں

0
29
زخم ملتے ہیں دلوں کو نئے ، آلام کبھی
سر سے ٹلتی ہی نہیں گردش ایام کبھی
آنکھ سے جاتے نہیں سائے کھلی زلفوں کے
ہونٹ بھی تھکتے نہیں لیتے ہوئے نام کبھی
درد بڑھتا ہی گیا جب بھی دعا کی رب سے
دل کے بیمار کو آتا نہیں آرام کبھی

0
21
اپنی زلفوں میں کہیں دیکھ سجا لے جائے
جانے کس سمت ہمیں آج ہوا لے جائے
دل میں تصویر کوئی کرتی ہے دیوانہ سا
چاندنی مجھ کو نہ مجھ سے چرا لے جائے
حوصلہ خود سے نہیں لڑنے کا باقی ہم میں
دل نشیں پھر نہ حسیں ہم کو جگا لے جائے

0
35
دنیا سے آؤ گزر جاتے ہیں
ٹوٹ کے دیکھ بکھر جاتے ہیں
وحشتوں سے بھری ہیں اب راہیں
چھوڑ کے دشت کو گھر جاتے ہیں
عشق مشکل ہے مسافت جگ میں
ساتھ دستار کے سر جاتے ہیں

0
21
لٹ سے گئے ہیں لمحے جو ، صبر و قرار کے
ہیں نقش کیا کمال کسی شاہکار کے
اجڑے ہیں اس طرح سے کہ حاصل سکوں نہیں
لگتے ہیں آج دور ہمیں گل ، بہار کے
ہر غنچہ دل گرفتہ ہے یادوں میں یار کی
چپ ہو گئے ہیں یار کو موسم پکار کے

32
جاگتی آنکھیں رات بھر کے دکھ
سحر کیا جانے چشم تر کے دکھ
اب گنے کون چاند ، تاروں میں
کچھ اڑی خاک ، رہ گزر کے دکھ
شام کے چہرے پر لکھا ہے سب
دشت کی ریت دوپہر کے دکھ

0
22
بڑھے چراغ کے اب لو ، ہوا سے کچھ تو کہو
بہت اداس ہے محفل صبا سے کچھ تو کہو
حریم ناز میں دیکھو کمی ہے دلبر کی
بلا کے لاؤ اسے خوش ادا سے کچھ تو کہو
تڑپ رہے ہیں کھلے بازو چاہ میں اس کی
ملے وہ ہم سے گلے دل ربا سے کچھ تو کہو

0
17
کانچ پلکوں سے اٹھانے پڑتے
حال گر دل کے سنانے پڑتے
ٹوٹے رشتوں کا بتانا پڑتا
داغ سینے کے دکھانے پڑتے
راستے کٹتے اندھیروں میں جو
خط لکھے تیرے جلانے پڑتے

37
خیال یار سے خود کو نہال رکھتے ہیں
سجا کے چہروں پہ کافر جمال رکھتے ہیں
چھپا کے رکھتے ہیں غم ہجر میں ملے سارے
خوشی کے بدلے سنبھالے ملال رکھتے ہیں
کسی چمکتے ستارے سے چاند کی لو تک
وہ گردشوں میں سبھی ماہ و سال رکھتے ہیں

0
47
لمحے ماضی سے بلائے جائیں
ناز پھر ان کے اٹھائے جائیں
چاک پر پھر سے رکھا جائے دل
یار کے نقش بنائے جائیں
اس سے پہلے کہ گذر جائے دن
رنگ تتلی کے چرائے جائیں

30
تم بڑا اپنا ہی قد کرتے ہو
نام جگ کے جو خرد کرتے ہو
ہے حقیقت یہ اگر مانو تو
زندہ خود کو تا ابد کرتے ہو
ہاتھ جب ہاتھ پہ رکھ لیتے ہو
اپنے ہونے کو بھی رد کرتے ہو

0
24
کر لی رسوائی زمانے کی گوارہ میں نے
کر لیا جرم محبت کا دوبارہ میں نے
موج طوفان کی ہے میرے مقابل لیکن
بیچ ڈالا ہے مقدر کا ستارہ میں نے
ہجر جھیلا ہے بڑا صبر سے تیرا دل نے
الفتوں میں سہا ہے روز خسارہ میں نے

21
چھپائے درد بڑی سوگوار گزری ہے
بنا تمہارے یوں اپنی بہار گزری ہے
گلوں نے خود کو نکھارا نہیں ہے خوشبو سے
چمن پہ دل کے قیامت ہزار گزری ہے
تلاش کرتے رہے ہیں تھکے تجھے تارے
سحر بھی چپکے سے ہر اشک بار گزری ہے

0
19
دل ناتواں کو اپنے یہ راحت کہاں ملے
پھر زندگی کو اپنی ، محبت کہاں ملے
تیرے بنا سکون نہیں من کو اب مگر
ہوں ہم کلام تجھ سے یہ مہلت کہاں ملے
اک عیب تم سمجھتے رہے الفتوں کو بھی
پر نفرتوں سے اپنی طبیعت کہاں ملے

0
34
شاخ مہکے جو کوئی اسکو جلا دیتے ہو
تم بہاروں میں جفا ، تیز ہوا دیتے ہو
جانتے ہو کہ ہے حل موت دکھوں کا میری
اس لئے جینے کی ہر روز دعا دیتے ہو
میں اٹھاتا ہوں لٹی لاش پڑی چوکھٹ پر
پیار میں زہر ، کڑی کیسی سزا دیتے ہو

0
27
پھول پر اوس کا اک قطرہ سجا دیتے ہو
تم ، گلابوں کو مہکنا بھی سکھا دیتے ہو
پیار آ جائے جو اپنے ہی کسی بندے پر
تم لگی آگ میں ، جنت کا مزا دیتے ہو
جانتے تم ہو کہاں درد کی شدت کو بھی
تیر ترکش میں مگر روز چڑھا دیتے ہو

0
32
خالی ہاتھوں کی لکیروں سے خزانہ نکلے
اپنی قسمت سے جدائی کا زمانہ نکلے
پھر کتابوں پہ جمی وقت کی مٹی اترے
بھولے ماضی کا دبا کوئی فسانہ نکلے
جھیل کے پانی میں بیٹھا کوئی پھینکے پتھر
شب کے منظر سے چھپا چاند سہانا نکلے

22
جیتے جی اب مٹنا یا مٹانہ نکلے
بند پلکوں سے چھپا غم کا خزانہ نکلے
ایک سینے کا لگا زخم ہرا ہو جائے
رتجگے کی زباں سے عذر ، بہانہ نکلے
پھر کتابوں پہ جمی وقت کی مٹی اترے
بھولے ماضی کا دبا کوئی فسانہ نکلے

0
25
پھول پر اوس کا اک قطرہ سجا دیتے ہو
تم ، گلابوں کو مہکنا بھی سکھا دیتے ہو
پیار آ جائے جو اپنے ہی کسی بندے پر
بھڑکی تم آگ میں جنت کا مزا دیتے ہو
درد کے نام سے واقف ہو کہاں مرضی سے
آخری تیر بھی ترکش کا چڑھا دیتے ہو

0
36
اونچی سی فصلیوں سے وہ دکھی برہم نکلے
پھر سے ظالم کے مقابل بڑا ماتم نکلے
درد کا شہر مٹے ، غم کا نگر ہو مٹی
دیکھنے کو بپا منظر کوئی عالم نکلے
دکھ سے آزاد ہو ہر رنج سے رب کی دھرتی
منہ چھپائے ہوئے قاتل مرا نادم نکلے

0
40
اٹھی ہیں یاد کی پھر لہریں ، اب تو آ جاؤ
دکھی ہیں اشکوں میں نم پلکیں اب تو آ جاؤ
لبوں کی ہم نہیں بھولے ہیں آج بھی ، لرزش
جدائی میں رکی ہیں ، سانسیں اب تو آ جاؤ
چلے ہیں اپنے نشیمن کو شب ہوئی ، طائر
اڑی ہیں گھر کو سبھی کونجیں اب تو آ جاؤ

0
61
جیسے ساقی ، گنہ ، آرام سے مل لیتے ہیں
ایسے ہم رات کسی شام سے مل لیتے ہیں
خط لکھے یار کو بن جاتے ہیں خوشبو جب
لفظ ماضی کے بھی گمنام سے مل لیتے ہیں
کچھ خیالات ہمیں آتے ہیں جو چھاؤں کے
اس بہانے لگے الزام سے مل لیتے ہیں

0
42
ماجرا سارا سنا بیٹھے ہیں
اشک پلکوں پہ جو آ بیٹھے ہیں
ہو کے بیگانے محبت سے ہم
آگ پانی میں لگا بیٹھے ہیں
پھول زلفوں میں سجا کے ان کے
خود کو دیوانہ بنا بیٹھے ہیں

0
30
عمر بھر کے کھدیڑ دیتا ہے
دکھ سے پتلی سکیڑ دیتا ہے
باغباں ، پھول ہار جاتے ہیں
دشت کے تپتے پیڑ دیتا ہے
نخل الفت کا سبز بھی ہو گر
شجر جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے

26
درد دنیا میں تری سہنا پڑا ہے دل کو
لوگ چھوٹے تھے بڑا کہنا پڑا ہے دل کو
بول کے جھوٹ کئی بار جیا ہے جیون
پل میں دھڑکن کے لئے مرنا پڑا ہے دل کو
کر کے سودا بھرے بازار کہیں غیرت کا
بن کے آنسو کی طرح بہنا پڑا ہے دل کو

26
اک قبا اپنی کتر کے بیٹھے ہیں
شہر میں تیرے سنور کے بیٹھے ہیں
ڈوبنے کا ڈر نہیں ہے دل کو کچھ
راہ میں دیکھو بھنور کے بیٹھے ہیں
کاٹ کے زنجیر پاؤں کی پڑی
سائے میں ٹوٹے شجر کے بیٹھے ہیں

0
49
اک قبا اپنی کتر کے بیٹھے ہیں
شہر میں تیرے سنور کے بیٹھے ہیں
ڈوبنے کا ڈر نہیں ہے دل کو کچھ
راہ میں لیکن بھنور کے بیٹھے ہیں
کاٹ کے زنجیر پاؤں کی پڑی
سائے میں ٹوٹے شجر کے بیٹھے ہیں

0
24
الفتیں جیسے شاہ کرتے ہیں
پیش ہم مہرو ماہ کرتے ہیں
ہے طلب سب کو ہی زمانے کی
ہم فقط تیری چاہ کرتے ہیں
لوگ کہتے ہیں اس کو سایہ سا
ہم کوئی جب بھی آہ کرتے ہیں

0
42
یار کی دلربائی مل جاتی
ساری ہم کو خدائی مل جاتی
لفظ مل جاتے چپ سے ہونٹوں کو
لکھنے کو روشنائی مل جاتی
روگ تنہائیوں کے مٹ جاتے
آرزو ہر بھلائی مل جاتی

0
29
یار کی دلربائی مل جاتی
ساری ہم کو خدائی مل جاتی
لفظ مل جاتے چپ سے ہونٹوں کو
لکھنے کو روشنائی مل جاتی
روگ تنہائیوں کے مٹ جاتے
آرزو ہر بھلائی مل جاتی

31
ہو گئے گم وہ آسمانوں میں
رہ گئے بس ہیں داستانوں میں
جنکے قصے سخن صداقت تھے
اب وہ ملتے نہیں زمانوں میں
سب سے اقبال کا ہے شکوہ یہ
کھو گئے ہم ہیں کن جہانوں میں

0
54
غم بہت دور چھوڑ آئیں ہم
آج جی تھا کہ مسکرائیں ہم
ہم کریں بوجھ دل کا ہلکا کچھ
مے و ساغر اٹھا کے لائیں ہم
بند در ہے اگر مے خانے کا
انکا دروازہ کھٹکھٹائیں ہم

34
چاندنی میں غبار تیرا ہے
حسرتوں کا مزار تیرا ہے
رونقیں گم ہیں جو چراغوں کی
ہم پہ اب اختیار تیرا ہے
جام اشکوں کے ہیں مقابل پر
آنکھ کو انتظار تیرا ہے

0
39
لوگ کہتے ہیں کہ ہم دنیا بھلا دیتے ہیں
سب لگے زخم ، ملے غم بھی مٹا دیتے ہیں
ہم بھلا دیتے ہیں بیتے ہوئے ان لمحوں کو
تیری چوکھٹ پہ اٹھا سر جو جھکا دیتے ہیں
دیکھتے ہم ہیں نشیمن سے دھواں اٹھتا سا
پھر بھی شعلوں کو کوئی اپنی قبا دیتے ہیں

0
51
ہیں طلاطم پہ دھارے دریا کے
رو رہے ہیں نظارے دریا کے
کہہ رہے ہیں سفینے بہتے سب
ہیں یہ افسانے ہارے دریا کے
ہمتیں بھی نہیں ہیں باقی کچھ
روٹھے ہیں یوں ستارے دریا کے

0
64
ہم نے پلکوں میں بسایا ہے حفاظت کی ہے
ٹوٹ کے چاہا تجھے یوں کہ عبادت کی ہے
سر جھکایا نہیں قدموں میں کبھی دنیا کے
ہر روایت سے زمانے کی بغاوت کی ہے
روز ہم چاک گریبان لئے پھرتے ہیں
ہم نے کب شکوہ کیا جگ سے شکایت کی ہے

0
39
یاد آتے ہو قیامت سی جگا دیتے ہو
دل کی دنیا میں کوئی حشر اٹھا دیتے ہو
شام ہوتے ہی چھا جاتے ہو حواسوں پر تم
خواب کیا ، زندگی افسانہ بنا دیتے ہو
توڑتے پیار سے ہو بند بندھے اشکوں کے
بوند یادوں کی دریچوں پہ بٹھا دیتے ہو

0
53
بہار ، خوشبو چمن میں حسیں نہیں ملتا
ترے بغیر سکوں اب کہیں نہیں ملتا
جمی ہے برف یہاں الفتوں کے ہونٹوں پر
کوئی بھی تجھ سا رخ آتشیں نہیں ملتا
ہوا کے دوش پہ ملتے ہیں یار دنیا میں
وفا زمانے میں دل کو مکیں نہیں ملتا

40
گل و شبنم کے داغ جلتے ہیں
قاتلوں کے سراغ جلتے ہیں
یاد سے تیری لو لگائی ہے
عشق میں دل ، دماغ جلتے ہیں
اک تصور ، ترے خیالوں میں
فرصتیں ، پل فراغ جلتے ہیں

2
50
درد بکتا ہے ، دعا بکتی ہے
اس زمانے میں شفا بکتی ہے
یار بکتا ہے کہیں گلیوں میں
پیار کے ساتھ ، وفا بکتی ہے
لگتا ہے روز جہاں میں میلہ
شہر الفت میں جفا بکتی ہے

0
51
درد بکتا ہے ، دعا بکتی ہے
اس زمانے میں شفا بکتی ہے
یار بکتا ہے کہیں گلیوں میں
پیار بکتا ہے ، وفا بکتی ہے
لگتا ہے روز جہاں میں میلہ
شہر الفت میں جفا بکتی ہے

85
شب کا دیپک بجھائے جاتے ہیں
درد من میں چھپائے جاتے ہیں
چھوڑ کے خوف ہم گھٹاؤں کے
ریت میں گھر بنائے جاتے ہیں
آج مجبور ہم ہوئے ہیں یوں
رنگ و بو میں نہائے جاتے ہیں

0
50
دل لگانے کی زمانے میں سزا پائی ہے
شب ہے پہلو سے لگی اور غم تنہائی ہے
اشک گرنے کی بھی آتی ہے صدا کانوں میں
رت ہے خاموش کھڑی سلب سی گویائی ہے
ہر دریچے میں مرے گھر کے بسی ہیں یادیں
اک اداسی مری ہر طاق سے در آئی ہے

0
39
چاند چھپتا ہے کہیں رات گہن جلتا ہے
دیپ بجھتے ہیں کہیں من کا چمن جلتا ہے
جاگتی دیر تلک ہے مری بانہوں میں شب
بحر حسرت کا سرابوں میں مگن جلتا ہے
شام ڈھلتی ہے محبت کی جھکی پلکوں میں
دل کی دھڑکن میں ستاروں کا کفن جلتا ہے

0
53
در ، بدر کو مکان مل گیا ہے
مجھ کو سارا جہان مل گیا ہے
مل گئی ہے سفر کو سمت نئی
اک نیا کاروان مل گیا ہے
نا امیدی نے پائی ہے یوں کرن
دشت میں ساربان مل گیا ہے

34
سب سجا کے مچان بیٹھے ہیں
دوست پکڑے کمان بیٹھے ہیں
جشن برپا ہے چاند تاروں میں
ہار کے ہم جہان بیٹھے ہیں
شہر کا شہر ہی مخالف ہے
اور گرا ہم مکان بیٹھے ہیں

0
63
غم کی بستی سے ذات گزری ہے
بانٹتی جاں برات گزری ہے
پوچھتے ہیں خیال سوچوں سے
ڈھونڈتے کیا حیات گزری ہے
یار کے وصل کی لئے حسرت
ہاتھ سے کائنات گزری ہے

0
49
خاموش آنکھ کو بھی دعا یاد آ گئی
منہ موڑا یار نے تو قضا یاد آ گئی
دو گام ہی چلی تھی کسی ہجر میں وفا
آزار راستے کے ، بلا یاد آ گئی
چمکی افق پہ دور کہیں جب بھی روشنی
دیپک کو تیز چلتی ہوا یاد آ گئی

0
42
پردوں سے نکلنے کی جسارت نہیں کرتے
کیوں یار حقیقت میں قیامت نہیں کرتے
ہے زخم وفا جس کا نہیں کوئی بھی محرم
یہ داغ ہے وہ جس پہ سیاست نہیں کرتے
کہتا ہے چڑھا چاند بھی دنیا سے یہ قصہ
ہم شب میں ستاروں کی حفاظت نہیں کرتے

0
43
دعا میں میری بھی شاید اثر نہیں آیا
شجر پہ میرے جو واپس ثمر نہیں آیا
رہی ہے پیاسی زمیں میری آسماں میرے
گزر گئے کئی موسم ابر نہیں آیا
مچل رہی ہے وفا پہلو میں کہیں تنہا
سلگ رہے ہیں ستارے قمر نہیں آیا

0
53
اپنے ہونے کا پتہ دینے لگے
دوست کچھ ایسے دغا دینے لگے
جن کو سینچا تھا گلوں کی صورت
پھر وہی پتے ہوا دینے لگے
چھین کے مجھ سے مکاں میرا گھر
اپنے پہلو میں جگہ دینے لگے

0
51
گر مشکلوں میں اپنا گزارہ نہیں رہا
وہ بھی تو اب مسیحا ہمارا نہیں رہا
الفت پہ اعتبار جو باقی نہیں اسے
میری بھی سحر کا وہ ستارہ نہیں رہا
عیش و نشاط کی نہ اگر زندگی رہی
یاروں کا بھی ہمارے سہارا نہیں رہا

0
67
مجھ پہ الفت کی نظر تو کر دے
رات میں میری سحر تو کر دے
گل کھلا پھر سے کوئی سر مژگاں
چشم مے گوں کو ادھر تو کر دے
ہو میسر ہمیں جس کی خوشبو
کرم اتنا زمیں پر تو کر دے

0
46
مجھ پہ الفت کی نظر تو کر دے
رات میں میری سحر تو کر دے
گل کھلا پھر سے کوئی سر مژگاں
چشم مے گوں کو ادھر تو کر دے
ہو میسر ہمیں جس کی خوشبو
کرم اتنا زمیں پر تو کر دے

0
49
شب بھی کٹتی نظر نہیں آتی
ان کی جب تک خبر نہیں آتی
زندگی ہے وبال وہ شاید
شام جس کی سحر نہیں آتی
کیسا ہے بے خودی کا عالم یہ
ہوش جو عمر بھر نہیں آتی

0
50
گولی کے فیصلے
من نے چپکے سے کہا گولی ہے
سر نہ اپنا تو اٹھا گولی ہے
بیٹھ جا بن کے تو بزدل جگ میں
نام بھی دے گی مٹا گولی ہے
اس کی دہشت سے جہاں ڈرتا ہے

0
42
احساس مجھ کو جگ کا نہ اپنا یقیں رہا
وہ سامنے رہا کہ یوں میں ، میں نہیں ریا
پڑھتا رہا ہوں شوق سے آنکھیں میں یار کی
جن کے اثر میں آج بھی زیر نگیں رہا
میں ڈھونڈتا رہا اسے وہم و گمان میں
پہلو میں میرے آ کے جو شب بھر مکیں رہا

0
43
تو سمندر ہے تو ہی ساحل ہے
ہم سفر ہے تو ، تو ہی منزل ہے
تیری الفت ہے سنگ در اپنا
ہر دعا کا تو میری حاصل ہے
کب جلاتا ہوں کوئی دیپک میں
حسن تیرا ہی جب مقابل ہے

0
36
نین رہ جن کی تکتے ہار گئے
یار کس دیس وہ سدھار گئے
بھر کے نینوں میں بحروں کا پانی
ہم کو ساحل پہ ہی اتار گئے
پر ہیں انکے لہو میں ڈوبے سب
ڈھونڈنے پنچھی پھر جو پار گئے

0
54
کون اب آس ، پاس رہتا ہے
دل کہ اکثر اداس رہتا ہے
آن بستا ہے شام ڈھلتے ہی
بن کے مدت کی پیاس رہتا ہے
غم کا پیمانہ خود ہی بھرتا ہے
خود ہی پھر بد حواس رہتا ہے

0
39
مکھ نہ چلمن سے دکھائے کوئی
ہم سے ہم کو نہ چرائے کوئی
ہنس کے اب نہ پکارے ہم کو
حوصلے پھر نہ بڑھائے کوئی
شام کے دیپ جلا بیٹھے ہیں
ان کی باتیں نہ سنائے کوئی

0
32
ہم کہاں کے جگ کو سزا دیتے ہیں
چوٹ کھا کے بھی دعا دیتے ہیں
ہم تڑپتے ہیں چراغوں کے لئے
غم جنہیں روز بجھا دیتے ہیں
شام ہوتے ہی چلے آتے ہیں
جل کے راتوں کو ضیا دیتے ہیں

0
54
ہنس کے سہہ جا ملی جدائی کی رت
مڑ کے آتی نہیں رسائی کی رت
کون تیری سنے گا دیوانے
تجھ سے ہے دور لب کشائی کی رت
ہے سفر میلوں کا محبتیں بھی
کشت و خوں ہے یہ جبہ سائی کی رت

0
58
چاک دامن گو اک غریب کا ہے
اس سے رشتہ مگر قریب کا ہے
منتظر آج بھی ہے جس کا شجر
گل اثاثہ وہ عندلیب کا ہے
آشنا سر ہے جس کا برسوں سے
سامنے در اسی رقیب کا ہے

0
41
چاک دامن گو اک غریب کا ہے
من کا رشتہ مگر قریب کا ہے
منتظر آج بھی ہے جس کا شجر
گل اثاثہ وہ عندلیب کا ہے
آشنا سر ہے جس کا برسوں سے
سامنے در اسی رقیب کا ہے

0
42
چاہے طوفاں کوئی اٹھا لینا
آنکھ سے آنکھ بس ملا لینا
آرزو دل کی اک ہے ننھی سی
دو قدم آگے بھی بڑھا لینا
آج دے کے ہمیں سکوں کے پل
پھر کبھی صبر آزما لینا

43
دشت ، صحرا سراب دیکھے ہیں
ہم نے جلتے گلاب دیکھے ہیں
جینا دشوار ہے ، ہمیں مشکل
وقت اتنے خراب دیکھے ہیں
عشق ناکام ہی سہی لیکن
جام ، ساقی ، شراب دیکھے ہیں

0
55
خوشبو تیری نہیں پہچان سے جانے والی
یاد دل سے نہیں جی جان سے جانے والی
ہم کو آتی ہے یہ آواز مسلسل من سے
غم کی راحت نہیں نادان سے جانے والی
دکھ ہے قاتل کو ہمارے بھی بہت سا لیکن
سانس بخشی نہیں احسان سے جانے والی

0
2
62
در پہ تیرے جھکا جو سر میرا
ختم مشکل ہوا سفر میرا
آئنے میں تھا عکس گہرا سا
ساتھ تھی پھر وفا ، ثمر میرا
پا لیا سب سراب کا کھویا
سامنے تھا میرے جو گھر میرا

48
ہاتھ میں دیکھ ہمارے کیا ہے
زندگی درد کے دھارے کیا ہے
ٹوٹ جاتا ہے تو کنکر بن کے
بس میں تیرے بھی ستارے کیا ہے
چاند ہے ان کی وجہ سے روشن
ورنہ قسمت میں تمہارے کیا ہے

1
82
درد آنکھوں سے بہا دیتا ہے
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے
پاؤں میں رکھ کے تھکن برسوں کی
پیار جھونکوں میں اڑا دیتا ہے
چھین لیتا ہے وفا میں نیندیں
یاد کی سولی چڑھا دیتا ہے

0
53
نانا کی عطا ، دیں کی بقا بول رہی ہے
شبیر کے سجدے میں وفا بول رہی ہے
نیزے پہ چڑھا ہے وہ محمد کا نواسا
ڈھلتے ہوئے سورج میں ضیا بول رہی ہے
کہتی ہے صداقت ہوئی نازاں یہ جہاں سے
چہرے کے تبسم میں رضا بول رہی ہے

54
ہم کو بلاتی ہے وہ سحر جاگتے رہو
ہے رات کا پچھلا پہر جاگتے رہو
سب ٹوٹتے ہیں تارے کرن پھوٹتی ہے اب
ہے جستجو میں دن کی ، نظر جاگتے رہو
کب تک رہے جنون کوئی ، قید میں بدن
پھوٹیں گے غم سے گل کے نگر جاگتے رہو

0
70
شیشے کے بنے دیر و حرم ٹوٹ رہے ہیں
کم ظرف شریفوں کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں
شہرت ہو کہ قوت ہو ، حکومت ہو کہ دولت
ہاتھوں سے ممولوں کے علم ٹوٹ رہے ہیں
صحرا کے مسافر تجھے معلوم نہیں ہے
وحشت میں سرابوں کے قدم ٹوٹ رہے ہیں

0
60
غموں کے دھکتے ہیں آلاؤ بڑا اندھیرا ہے
نظر نظر سے نہ چراؤ بڑا اندھیرا ہے
پیام مجھ کو نہ دو اک اجل کے آنے کا
نہ زہر مجھ کو پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مرے ہیں چاروں طرف کارواں محبت کے
یونہی نہ اشک بہاؤ بڑا اندھیرا ہے

0
38
اور پلکوں کو جگایا نہیں جاتا ہم سے
سر ترے در پہ جھکایا نہیں جاتا ہم سے
نقش ہر روز مٹاتے ہیں خیالوں سے ہم
تو مگر پھر بھی بھلایا نہیں جاتا ہم سے
اشک خاموش ٹپکتے ہیں تمہارے غم میں
زخم الفت کا دکھایا نہیں جاتا ہم سے

0
44
سچ پہ لوگوں کو سزا دی جائے
حق کی آواز دبا دی جائے
رات چپکے سے لگا کے پہرے
بجلی باطل کی گرا دی جائے
گپ اندھیرے میں چھپا کے راہیں
شب کسی شب سے ملا دی جائے

0
49
سچ پہ لوگوں کو سزا دی جائے
حق کی آواز دبا دی جائے
رات چپکے سے لگا کے پہرے
بجلی باطل کی گرا دی جائے
گپ اندھیرے میں چھپا کے راہیں
شب کسی شب سے ملا دی جائے

0
68
رنگ وہ زندگی میں پھر سے سہانے آتے
خط لکھے ان کے ہمیں پھر سے پرانے آتے
خوشبو پھولوں سے چرا کے جو ہوائیں آتیں
ہم پہ وہ پہلی محبت کے زمانے آتے
وہ ذرا تیکھی سی نظروں سے ہمیں دیکھتے جو
اپنے حصے بھی کئی کھوئے خزانے آتے

0
38
گر منصفوں کے فیصلے سر عام بولتے
لوح و قلم ہمارے نہ سر بام بولتے
ہر اختیار ٹوٹتا شب کے حصار کا
بجھتے دیے اندھیروں میں سر شام بولتے
ہوتے نہ عندلیب گلستاں میں قید سے
گھر کے اسیر بے وجہ ، سر دام بولتے

0
51
جھمکا کانوں کا ترے جیسے ہلا کرتا ہے
شب کا سناٹا مجھے ایسے ملا کرتا ہے
کیف و بارش کا سماں جس کو کہا کرتے ہیں
رنگ موسم کا بھی ہر اس میں ڈھلا کرتا ہے
ختم ہو جاتی ہے خوابوں کی جہاں پر سرحد
ان اندھیروں میں دیا من کا جلا کرتا ہے

0
43
جب خود سے ہی اپنا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا
دہلیز پہ پھر گھر کی تماشا نہیں ہوتا
وہ درد بھی دروازے پہ ملتا ہے گلے سے
قسمت کی لکیروں میں جو لکھا نہیں ہوتا
ہوتی ہیں کہیں خاک پہ بکھری ہوئی بوندیں
آنکھوں سے مگر اشکوں کا رشتہ نہیں ہوتا

0
32
محبتوں میں ہمیں خود سے بے نیاز کرے
نگہ ء یار کبھی یوں بھی سرفراز کرے
رگ جاں سے وہ ہماری قریب ہو کے کبھی
بلند ہم کو کرے ، آشنائے راز کرے
سکوں دلوں کا ملے بھیگتی رتوں میں کوئی
عطا ہمیں جو ادائیں وہ دل نواز کرے

0
68
مجبور ہے انساں کہیں آقا میں خدا ہے
مغموم ہے دل اور کہیں نوحہ سرا ہے
ہے خاک کے پیکر کا لگا جگ میں تماشا
ہاتھوں پہ سجی خون سے مہکی سی حنا ہے
سورج کی ہتھیلی پہ جلی دل کی تمنا
جسموں پہ کوئی لپٹی ہوئی سرخ قبا ہے

0
43
زندہ ہیں محبت میں کسی دار سے لگ کے
زخمی ہیں بڑے ہاتھ چبھے خار سے لگ کے
اٹھتا ہے دھواں من سے ، لہو ایک جگر سے
بے بس ہے زلیخا کہیں دیوار سے لگ کے
الفت ہے کہیں غم کہیں ہے جنموں کا ماتم
کہتی ہے صبا کان میں دلدار سے لگ کے

0
60
یار میرے جو اگر تیری نظر ہو جاتی
داستاں اپنی ، کہانی بھی امر ہو جاتی
ہونے کا اپنے ہمیں کوئی یقیں ہو جاتا
قرب حاصل جو ترا ہم پہ نظر ہو جاتی
ہم کو آ جاتا سلیقہ جہاں میں جینے کا
تیری دہلیز سکوں اپنا جو گھر ہو جاتی

0
58
زخموں سے جہاں کی دکھن جھانک رہی ہے
پاؤں سے لہو ، آج چبھن جھانک رہی ہے
پوشیدہ ہے سینے میں کہانی کوئی لیکن
صفحات سے رو داد کہن جھانک رہی ہے
گرتے ہوئے اشکوں کی روانی سے ہماری
ہر بوند میں خوشبوئے چمن جھانک رہی ہے

0
46
اپنے ہی ہم قدم نہیں ہوتے
یوں کبھی ہم میں ہم نہیں ہوتے
حادثے ایسے ہو گزرتے ہیں
زخم جن کے رقم نہیں ہوتے
سب مکر جاتے ہیں قسم دے کے
جیسے دیر و حرم نہیں ہوتے

0
76
دل میں عالم بسائے پھرتے ہیں
پھر بھی دیپک بجھائے پھرتے ہیں
لے نہ کروٹ کوئی بھی چنگاری
اپنا دامن بچائے پھرتے ہیں
چور تھک کے ہوئے گناہوں سے
آنکھ خود سے چرائے پھرتے ہیں

0
81
ہم وہ پیاسے ہیں کہ صحرا نہ سمندر پائیں
ٹھوکریں کھائیں مگر راہیں نہ میسر پائیں
پہلو میں اپنے زمانے بھی ہیں موتی لیکن
ہم مگر ساتھ کہیں ان سا نہ ہمسر پائیں
آنکھوں پر چھائی ہے تاریک سی چادر ایسے
صبح اب ہم نہ کبھی اپنی منور پائیں

0
50
پیار ، لطف و کرم کہاں ہیں اب
ہم سفر ، ہم قدم کہاں ہیں اب
ہر حقیقت سے ہر کہانی تک
آگ ، پانی بہم کہاں ہیں اب
حکمت و خرد کی کتابوں میں
الفتوں کے بھرم کہاں ہیں اب

0
64
بلبل و گل و ثمر جلتے رہے
سامنے اپنے نگر جلتے رہے
آپ کا حکم سفر تھا جو ہمیں
بے خبر شام و سحر جلتے رہے
محو پرواز گرے ایسے کہیں
دور تک شہر بدر جلتے رہے

0
57
میں رات بھی انداز سحر کاٹ گیا ہوں
میں اپنی تمناؤں کے پر کاٹ گیا ہوں
ہر آس میں من کی مٹا کے صبر کا موسم
چپ چاپ کوئی دکھ کا پہر کاٹ گیا ہوں
اک تیرے خیالوں سے سجا کے میں تخیل
بے چہرگی میں رخت نظر کاٹ گیا ہوں

0
64
اپنوں کی الفتوں کو بھی بسمل بنا دیا
آسائشوں نے زیست کو مشکل بنا دیا
لے کے یہ زندگی ہمیں دی ہیں جو راحتیں
بستی کو وحشتوں نے بھی جنگل بنا دیا
بن کے کوئی تمنا جو برسی ہے بوند میں
اس نے بھی چشم گریاں کو پاگل بنا دیا

189
سوچ کے تو مرے انداز بدل
ذوق میرا ، مری پرواز بدل
جام جم کا کوئی جمشید نہیں
اپنی قدرت کا تو اعجاز بدل
بھر صدا میں مری تو برق نوا
حوصلوں کا مرے سر ساز بدل

0
57
اک کہا جس نے کبھی جگنو ، اجالا تجھ کو
چھوڑ دے گا وہ کہیں راہوں میں اپنا تجھ کو
جھونک کے دھول سی کرنوں کی تری آنکھوں میں
روشنی لے کے تری ، دے گا اندھیرا تجھ کو
تو بنے گا کوئی دیوانہ یوں مجنوں اے دل
زندگی سمجھے گی بس خاک کا پتلا تجھ کو

0
72
طنز ، دشنام کو بھی ایک لطیفہ جانیں
ہم تو اب اپنے ہی قاتل کو مسیحا جانیں
درد ہے دل کا ، دھواں ہے یہ محبت لیکن
اس لگے زخم کو ہم خواب سہانا جانیں
ایسا کیا تو نے کیا ہے کہ گئی شب کو بھی
سحر ہم روز ، اندھیروں کو اجالا جانیں

0
59
خون دل کا ہوا ، لفظوں میں روانی آئی
کاٹ لی عمر تو پھر ، ہم پہ جوانی آئی
جو گزر رات گئی ہجر کی بھاری غم کی
بات کہنے کو ہمیں مرثیہ خوانی آئی
شام افسردہ رہی من بھی رہا بوجھل سا
یاد جب بھی تری ، تصویر پرانی آئی

0
42
اک نئی آگ میں جلنا چاہے
موم پھر بن کے پگھلنا چاہے
اس سے پہلے ہو جگر بھی زخمی
دل قبا اپنی بدلنا چاہے
منزلیں کھوئی ہیں اسکی ساری
اب حوادث سے نہ لڑنا چاہے

0
67
ساتھ تیرے ہے ہر خوشی اب تو
مرنا تجھ پر ہے زندگی اب تو
اے وطن تو ہے راحتیں من کی
نسبتیں سب ہیں دائمی اب تو
دور تجھ سے میں یوں رہوں کیسے
پیار تیرا ہے بندگی اب تو

0
72
چلو محبتوں کا گھونسلا بناتے ہیں
سجانے کو سبھی سپنے جگہ بناتے ہیں
ملا کے پیار سے رکھتے ہیں تنکے اکٹھے پھر
چہکتی چڑیوں کا گھر ہم نیا بناتے ہیں
بدن کے درد سے کرتے ہیں ہر جدا دکھ کو
جلا کے من کا دیا غم عصا بناتے ہیں

0
68
بتا پائے نہ دل ، کیسے پڑی ہے
محبت بندھی ایسی ہتھکڑی ہے
بہت مشکل ہے اس میں سںنبھلنا
سفر ہے ہجر کا ، منزل کڑی ہے
مسافت ہے گماں کی روز یارو
انا سے جنگ ہر پل ، ہر گھڑی ہے

0
59
بتا پائے نہ دل ، کیسے پڑی ہے
محبت کی بھی کیا اک ہتھکڑی ہے
بہت مشکل ہے اس میں سںنبھلنا
سفر ہے ہجر کا ، منزل کڑی ہے
مسافت ہے گماں کی روز یارو
انا سے جنگ ہر لمحہ ، گھڑی ہے

0
67
جب جگ کی الفتوں کے ہمیں تجربے ہوئے
آنکھوں سے بہہ گئے کئی دریا رکے ہوئے
اک یاد ان کی دل کو کیا آج آ گئی
بھولی سی داستاں کے سبھی دکھ ہرے ہوئے
کاغذ پہ جل رہا تھا تھکا چاند رات کا
جیسے تھی صبح شام کے غم میں ڈھلے ہوئے

0
73
آخری ہچکی میرا لے گا دل
غم کہاں تیرا اب سہے گا دل
سوچتا ہوں کبھی میں تنہا سا
کب تلک کرچیاں گنے گا دل
چپ رہوں گا مگر حقیقت میں
میرا افسانہ سب کہے گا دل

0
61
آخری ہچکی میرا لے گا دل
غم کہاں تیرا اب سہے گا دل
سوچتا ہوں کبھی میں تنہا سا
کب تلک کرچیاں گنے گا دل
چپ رہوں گا مگر حقیقت میں
میرا افسانہ سب کہے گا دل

0
71
آخری ہچکی میرا لے گا دل
غم کہاں تیرا اب سہے گا دل
سوچتا ہوں کبھی میں تنہا سا
کب تلک کرچیاں گنے گا دل
چپ رہوں گا مگر حقیقت میں
میرا افسانہ سب کہے گا دل

0
64
بدلی ہے نگہ اپنی تو ، تیور بھی بدلتے
بدلے ہیں اگر ہاتھ تو ، پتھر بھی بدلتے
کیسے مرے حالات ہیں دنیا کے اے مالک
سپنے مرے کچھ خواب کے منظر بھی بدلتے
جھیلوں کے کناروں پہ لرزتا ہے کوئی دل
تم چاند پرانا ، نیا پیکر بھی بدلتے

0
58
میری پلکوں پہ ہو رہی ہے شب
میری آنکھیں بھگو رہی ہے شب
مجھ کو سپنے بہار کے دے کے
خود خزاؤں میں رو رہی ہے شب
رکھ کے تصویر سامنے گل کی
اشک اپنے پرو رہی ہے شب

0
83
لوگ کہتے ہیں کہ ہم گر کے سنبھل جاتے ہیں
یار کے کوچے میں آ کے جو بہل جاتے ہیں
کچھ جمے سے ہیں بہے آنکھ میں آنسو لیکن
وصل کی آس میں سارے ہی پگھل جاتے ہیں
من کو گوشہ یہی مانوس سا اک لگتا ہے
سامنے درد کے چہرے بھی بدل جاتے ہیں

0
68
لوگ کہتے ہیں کہ ہم گر کے سنبھل جاتے ہیں
یار کے کوچے میں آ کے جو بہل جاتے ہیں
کچھ جمے سے ہیں بہے آنکھ میں آنسو لیکن
وصل کی آس میں سارے ہی پگھل جاتے ہیں
من کو گوشہ یہی مانوس سا اک لگتا ہے
سامنے درد کے چہرے بھی بدل جاتے ہیں

0
81
پھونک دے ہستی میں میرے بھی اجالے آ کے
پھر مجھے اک موج کناروں پہ اچھالے آ کے
ہجر کے کالے اندھیرے ہیں محبت میں سب
اس پریشانی میں کوئی تو سنبھالے آ کے
رنج میں اس کو بنائیں کیا ساتھی اپنا
غم وہ تنہائی کا میری نہ بٹا لے آ کے

0
63
پاؤں میں زمیں ، سر پر آسمان رہنے دو
الفتوں کے کچھ رشتے درمیان رہنے دو
پھیلتی ہوئی وحشت میں زمانے کی دیکھو
اپنی ، آنکھوں میں صورت مہربان رہنے دو
ساتھ میرے چینخ اٹھتی ہیں گھر کی دیواریں
سنگ میرے غم اپنا بے زبان رہنے دو

0
60
بزم میں بکھرے ربابوں کی طرح
ہے خلش دل کی گلابوں کی طرح
اک بسی دل میں ہے گو دنیا مگر
ہوں میں خاموش کتابوں کی طرح
سانس اک بن کے وہ نس نس میں کبھی
جاگ اٹھتا ہے عذابوں کی طرح

0
60
اس نے پکڑ کے ہاتھ یونہی چھوڑ کیا دیا
بجھ سے گئے ستارے ، مرا بجھ گیا دیا
دل کی تمام رونقیں پل میں اجڑ گئیں
اک خواب تھا کہ جس نے ڈرا کے جگا دیا
ہم نے تراشا بت کوئی ہاتھوں سے جب کبھی
اک فیصلہ جہاں نے گنہ کا سنا دیا

0
57
اس نے پکڑ کے ہاتھ مرا ، چھوڑ کیا دیا
بجھ سے گئے ستارے ، مرا بجھ گیا دیا
دل کی تمام رونقیں پل میں اجڑ گئیں
اک خواب تھا کہ جس نے ڈرا کے جگا دیا
ہم نے تراشا بت کوئی ہاتھوں سے جب کبھی
اک فیصلہ جہاں نے گنہ کا سنا دیا

0
57
اس نے پکڑ کے ہاتھ مرا ، چھوڑ کیا دیا
بجھ سے گئے ستارے ، مرا بجھ گیا دیا
دل کی تمام رونقیں پل میں اجڑ گئیں
اک خواب تھا کہ جس نے ڈرا کے جگا دیا
ہم نے تراشا بت کوئی ہاتھوں سے جب کبھی
اک فیصلہ جہاں نے گنہ کا سنا دیا

0
77
مشکلوں میں مجھے جینا سکھا دیتے ہو تم
کچھ یوں مضبوط مجھے اور بنا دیتے ہو تم
میں کبھی ہار کے ہارا نہیں جگ میں تیرے
حوصلے میرے پہاڑوں سے بڑھا دیتے ہو تم
راستے خود ہی بچھے جاتے ہیں سب قدموں میں
اپنی شفقت کا درس ان کو پڑھا دیتے ہو تم

0
76
درد مجھ میں سمائے جاتے ہیں
زندگی سے نبھائے جاتے ہیں
دلکشی ہے بہت اداسی میں
اس کو رنگیں بنائے جاتے ہیں
لاکھ دنیا ہے بے وفا لیکن
پھر بھی ہم مسکرائے جاتے ہیں

0
86
ٹوٹے خوابوں کے ہم نگر دیکھیں
الفتوں کے کبھی سفر دیکھیں
کیسے ہر حال میں رہے ہیں خوش
گل و بلبل کی چشم تر دیکھیں
کر کے آغاز پھر سے دن کا ہم
دھوپ میں جلتا پر شجر دیکھیں

0
65
راہ گھر کا بھلائے بیٹھے ہیں
اپنا سب کچھ لٹائے بیٹھے ہیں
جانے والوں کے انتظار میں ہم
دیکھ آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں
پھول کھلتے ہیں جب بہاروں کے
ہم خزاں کو سجائے بیٹھے ہیں

0
79
ہجر ہم کو نڈھال رکھتے ہیں
پھر بھی خود کو سنبھال رکھتے ہیں
پھیلے خوشبو نہ تیرے آنچل کی
اس کا بھی ہم خیال رکھتے ہیں
الفتوں کے چراغ سے شب بھر
وحشتوں کو اجال رکھتے ہیں

0
74
دکھوں کو اپنے سخن میں اتار لیتے ہیں
یوں بھی کبھی انہیں چھپ کے پکار لیتے ہیں
یقین دیتے ہیں کھو جب کبھی بھی ہم خود پر
دعائیں مانگ کے چہرہ سنوار لیتے ہیں
گئے دنوں کی تھکن ہے ہمارے لہجے میں
کہاں سے جانے اداسی ادھار لیتے ہیں

0
39
نگر دل کا لٹا بستا نہیں ہے
سفر تنہا بھی اب کٹتا نہیں ہے
چلیں تو خوف آتا ہے جہاں سے
ہوا پر زور کچھ چلتا نہیں ہے
لگی ہر ٹوٹتی ہے آس دل کی
زمیں آکاش سب ملتا نہیں ہے

0
84
زندگی تیرے امتحان میں ہیں
جو سفر ٹوٹے بادبان میں ہیں
ہیں جواں حوصلے مثال کے سب
پر کٹا کے بھی ہم اڑان میں ہیں
بھولی ہیں کچھ پتے محبتیں پر
ہم مکیں اب بھی اس مکان میں ہیں

0
60
نکلے تھے ڈھونڈنے جسے وہ بھی ملا نہیں
واپس پلٹ ہی جائیں مگر در کھلا نہیں
مانو برا نہ بات کا ہے یہ مثال اک
ہو مہرباں زمیں پہ جو اس کو فنا نہیں
دنیا کی بھیڑ میں ہیں کئی راستے مگر
اے چشم پر ملال ، بچا حوصلہ نہیں

0
49
ہر درد دل کا اپنے سنایا نہیں مجھے
برباد ہو گیا وہ بتایا نہیں مجھے
رہ دیکھنے کو اس نے دیے منتظر سے پل
پر کہہ کے داستاں کو رلایا نہیں مجھے
تارے سے گن رہا ہوں سیہ آسماں کے میں
نا حق جدائیوں میں ستایا نہیں مجھے

0
100
تباہی کا بہانہ ڈھونڈتی ہیں
رتیں پل عاشقانہ ڈھونڈتی ہیں
ادائیں دلبرانہ مستیوں میں
وہی موسم ، فسانہ ڈھونڈتی ہیں
اٹھے جو دل کے تاروں سے محبت
وہ سر پھر والہانہ ڈھونڈتی ہیں

0
69
ہے حکومت ، کام سب سرکاری انٹر نیٹ پر
ہیں کتابیں بھی منے کی پیاری انٹر نیٹ پر
کچھ پکاتی اب نہیں ہے دیکھ بیگم نام کا
پڑ گئی ہے گھر کو ہی بیماری انٹر نیٹ پر
لڑ لڑائی سب رہے ہیں وائی ، فائی پر یہاں
اب ہے سالے کی سبھی سرداری انٹر نیٹ پر

0
77
یاد میں کھو کے تری ہم کیا سے کیا ہو جاتے ہیں
سوچ کے تجھ کو کبھی صحرا نما ہو جاتے ہیں
دنیا میں ملتا ہے کیا ، کس کو وفاؤں کا صلہ
دیکھتے سب رنگ ہم اس کے فنا ہو جاتے ہیں
خوں گنوا کے بھی جگر کا اشکوں میں اپنا سدا
قید میں الفت کی اک دیکھو سزا ہو جاتے ہیں

0
90
کیسا ہے اضطراب آنکھوں میں
کیوں ہیں مہکے گلاب آنکھوں میں
گم ہیں آنکھیں کبھی کتابوں میں
ہے کبھی گم کتاب آنکھوں میں
چاند آتا ہے دیکھنے چھت پر
ڈھونڈتا ہے جواب آنکھوں میں

0
108
کیسا ہے اضطراب آنکھوں میں
کیوں ہیں مہکے گلاب آنکھوں میں
گم ہیں آنکھیں کبھی کتابوں میں
ہے کبھی گم کتاب آنکھوں میں
چاند آتا ہے دیکھنے چھت پر
ڈھونڈتا ہے جواب آنکھوں میں

0
67
آنکھ میں یار کی کہاں ہوں میں
اک چبھن آنکھ کی دھواں ہوں میں
خار راہوں میں ہیں بچھے جس کے
ایسی منزل کا کارواں ہوں میں
میرے چہرے پہ ہے تھکن جگ کی
ہر طرف گونجتی فغاں ہوں میں

0
68
خوشبو کی مثال آ گیا تھا
یوں تیرا خیال آ گیا تھا
آئیں جو محبتیں مقابل
اک جیسے جمال آ گیا تھا
کی آرزو یا تلاش ان کی
لب پر یہ سوال آ گیا تھا

0
70
جدائی کی وہ کوئی شب گزارنے آئی
ہمیں دریچہ ء دل سے پکارنے آئی
وہ ہم سفر ہے کسی گلستاں میں خوشبو کی
گلاب یادوں کے سارے وہ وارنے آئی
جگر کے رستے ہوئے زخموں پر ہے کیا گزری
جنوں میں عشق کا وہ روپ دھارنے آئی

0
48
کسی بھی شہر وفا سے صدا نہیں آتی
گل و چمن سے ہمیں اب صبا نہیں آتی
دیار درد میں آمد نہیں مسیحا کی
جو بڑھ کے ہجر سے پھر ابتلا نہیں آتی
حیات نام ہے دنیا میں اس حقیقت کا
گئے دنوں کی جو آواز پا نہیں آتی

0
71
محبتوں میں زخم ، درد زندگی میں بھر گیا
وہ خواب اک بنا رہا جو پلکوں میں ٹھہر گیا
بدن کی اڑ گئی جو خاک دور ، دور تک مری
نگل گئی زمیں مجھے ، غبار اک بکھر گیا
لبوں سے گر نکل گئی دعا بھی بے اثر گئی
میں دیکھ کے خضر کوئی کبھی رہ ہی سے ڈر گیا

0
83
ہجر کی آتش کو جھرنا چاہیے
آج بارش کو برسنا چاہیے
اس محبت کے سمندر میں ہمیں
ڈوب کے پھر سے ابھرنا چاہیے
الفتیں بھی ہیں ضروری زندگی
تیر اک دل میں اترنا چاہیے

0
70
شام جب دور ڈھلی ہوتی ہے
مجھ کو محسوس کمی ہوتی ہے
شمع جلتی ہے کوئی یادوں کی
دل کو جب تیری لگی ہوتی ہے
آن بستی ہے خیالوں میں وہ
دھوم اک جسکی مچی ہوتی ہے

0
95
کیسا یہ حسرتوں بھرا اپنا نصیب تھا
جب جل رہے تھے خواب سمندر قریب تھا
اپنی صدائیں تھیں بسی کانوں میں سب مرے
کتنا وفاؤں کا یہ سفر بھی عجیب تھا
دل میں مرے نہ تھی کوئی جاگی سی کشمکش
سب سے بڑا ہی جیسے میں اپنا رقیب تھا

0
61
دانستہ جبر کی وہ سفارت بھی کرتے ہیں
کچھ الفتوں کی آج تجارت بھی کرتے ہیں
جب دیکھتے نہیں ہیں عداوت کے کچھ سوا
سو نام ان کے اپنی بصارت بھی کرتے ہیں
محفوظ ہیں بساط پہ مہرے اسی طرح
جو روز بڑھ کے آگے شرارت بھی کرتے ہیں

0
95
ہے کرم تیرا ، مہرباں ہے تو
تو صدا دل کی ، سر گراں ہے تو
گل کی خوشبو ، بہار گلشن کی
عرش کا پھیلا ، اک دھواں ہے تو
مجھ پہ کھولے جو در عقیدت کا
اک وفا کا وہ ، امتحاں ہے تو

56
جگ میں خلوص کی کوئی عادت نہیں رہی
منزل سے آشنا بھی قیادت نہیں رہی
ایسا نہیں وفا کا ہی سودا نہیں رہا
اس جنس کی نگہ میں بھی قیمت نہیں رہی
حاصل اسے نہیں ہے قدر کی جگہ کوئی
اس کی دلوں پہ دیکھ حکومت نہیں رہی

0
42
سامنے جب بھی کبھی اپنے جوانی آئی
یاد بیتی ہمیں پھر شام سہانی آئی
نیند جب بھی نہ کبھی آئی مری آنکھوں میں
سینے پر اپنے ابھر چوٹ پرانی آئی
زندگی کی ہے بسر رنج و الم میں اپنی
بات ہم کو نہ کوئی پھر بھی بنانی آئی

0
46
کچھ لے گئے ہیں دور ہواؤں کے سلسلے
ہیں درمیاں ہمارے خلاؤں کے سلسلے
رستہ بدل کے چلنے کی عادت نہیں ہمیں
سو آ کھڑے ہیں بیچ جفاؤں کے سلسلے
جینا محال ہے ہمیں دنیا کی بھیڑ میں
دشمن ہیں راہ میں کئی دریاؤں کے سلسلے

0
64
میری قسمت کو اندھیروں سے بھری شام نہ دو
دل کے رشتوں کو مرے آج کوئی نام نہ دو
تم نہ پھر باندھو مجھے اپنی محبت میں یونہی
زندگی کو مری راہیں ، نیا کہرام نہ دو
نغمہ و نور کی محفل میں کسی ، دوست مرے
تشنگی کو کوئی مینا ، بھرا اب جام نہ دو

0
63
بن گئی بات نہ جانے کیا ، کیا
کر دیا شوخ ادا نے کیا ، کیا
میری آنکھوں میں سمٹ آئے ہیں
پھر محبت کے زمانے کیا ، کیا
بیش قیمت ہیں وفا کی گھڑیاں
ان میں مدفن ہیں خزانے کیا کیا

0
77
دن سے ملنے چلی ہے غم کی شب
آج پھر ڈھل گئی ہے غم کی شب
ٹوٹتی چاند کسی تارے پر
آن مجھ میں چھپی ہے غم کی شب
رات کے بھیگتے سے لمحوں میں
بام پر پھر سجی ہے غم کی شب

0
96
مقدر میں ہی گر اپنے زیاں ہے
بہاروں میں بھی پھر اپنی خزاں ہے
اجل بھی مہرباں ہم پر نہیں جو
کہاں پھر وہ نسیمے بوستاں ہے
ہے کتنا تلخ دنیا کا یہ لہجہ
محبت کا کہاں اس میں بیاں ہے

0
77
پکارتا ہے خون تازہ پھولوں کا
پڑھا ہے گلوں نے جنازہ پھولوں کا
رلا کے جو ہوئے ہیں گم فضاؤں میں
بنے ہوئے ہیں وہ سراپا پھولوں کا
بدن ہے چھلنی سارا ان کا گولی سے
مگر کھلا ہوا ہے چہرا پھولوں کا

0
63
تھمتا نہیں دل وقت بھی جنبش نہیں کرتا
بجھتے نہیں تارے ، میں سفارش نہیں کرتا
دیتا نہیں میں ترک تعلق کی وجہ بھی
رہتا ہوں میں خاموش ، گزارش نہیں کرتا
کہتے ہیں مجھے غیر میں سنتا نہیں جن کی
اجڑے کوئی اور اسکی میں خواہش نہیں کرتا

0
54
اک چاند آنکھ کا کوئی تارا نہیں ہوا
پھر عشق بھی ہمیں تو دوبارہ نہیں ہوا
سچ ہے عذاب زندگی تھی یہ بنا ترے
سچ ہے ترے بغیر گزارا نہیں ہوا
تنہائی سے ہی دوستی اپنی رہی سدا
اس کو بھی ساتھ اور گوارا نہیں ہوا

0
57
اک تعارف ہے لکھا اپنی میں نے تحریر کا
مجھ کو اندازہ ہے اپنے جرم کی تعذیر کا
اک محبت کی خطا مجھ سے ہوئی ہے زندگی
رخ بدل تو نے دیا ہے ہر مری تصویر کا
اپنی بربادی کا مجھکو غم نہیں دیکھو کوئی
درد ہے مجھ کو گئی ہر آہ بے تاثیر کا

0
57
آ بسی جو دھنک چار سو آپ کی
جاگ دل میں اٹھی آرزو آپ کی
چاند چہرہ مقابل ہے اب آپ کا
منتظر ہے نظر کو بہ کو آ پ کی
ہے خیالوں میں خوشبو کئی رنگ کی
اشک ہیں آپ کے ، آب جو آپ کی

0
81
رہ گزر میری ، ہر سحر تو ہے
ڈھونڈتی ہے جسے نظر تو ہے
روشنی تجھ سے ہے مرے دل کی
جس کو سوچا ہے رات بھر تو ہے
اور کچھ بھی نظر نہیں آتا
جس کو چاہا ہے اس قدر تو ہے

0
72
کہتے ہیں جہاں مے کش و بادہ نہیں ہوتا
خوش رنگ وہاں رت کا لبادہ نہیں ہوتا
چہروں پہ ضیا ہوتی ہے ساقی کے ہی دم سے
دستور وفا اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا
لب تک بھی کبھی آتا نہیں حرف تمنا
اس درد میں کچھ شور زیادہ نہیں ہوتا

43
شب کے بجھتے سے چراغوں میں جلایا ہوا دل
منتظر پلکوں کی چوکھٹ پہ بٹھایا ہوا دل
میری آنکھوں میں بسایا ہوا اک چہرہ ہے وہ
شہر الفت کی فصیلوں پہ سجایا ہوا دل
لوگ محفل میں جسے شوق سے سنتے ہیں غزل
سوز کی تان پہ ، ہر گیت میں گایا ہوا دل

1
91
دل مرا سال ، وہی گزرے زمانے چاہے
پھر وہی یار ، وہی کھیل پرانے چاہے
مانگے دن ، رات رتیں وہ گئے موسم سارے
نیند ، وہ خواب مرے دیکھے سہانے چاہے
سانس جن سے رکی جاتی تھی مرے سینے میں
آج کہنے کو وہی بات ، فسانے چاہے

0
95
بے بسی میں ہوئے لاچار سے کیا ٹکرائے
بن گئی بات ذرا یار سے کیا ٹکرائے
دیکھتے ہیں ہمیں سب کھول کے کھڑکی گھر کی
پی کے پیمانہ سا دیوار سے کیا ٹکرائے
انکشافات ہوئے مجھ پہ حقیقت کے بھی
لوگ مجھ سے ، مری تکرار سے کیا ٹکرائے

0
56
دل عجب سا کوئی جھروکا ہے
جس کا منظر بڑا انوکھا ہے
جو مقابل دکھائی دیتا ہے
وہ حقیقت کہاں سے ہوتا ہے
آگہی مجھ کو دے تو بینائی
مجھ کو آنکھوں پہ کب بھروسہ ہے

0
83
اشک بن کے مری پلکوں پہ اٹک جو گیا ہے
میں نے کب نام وہ لب پر کبھی آنے دیا ہے
جب ذکر بھی کبھی آیا ہے ترا باتوں میں تو
انگلیاں بھینچی ہیں زخمی سا گریباں سیا ہے
مجھ سے کیوں آج چھڑاتی ہے تو دامن اپنا
زندگی تیرے لئے زہر بھی ہنس کے پیا ہے

0
39
گلوں سے باتیں کبھی ہم بھی رو برو کرتے
نذر یہ لمحے یوں گیسوئے مشک و بو کرتے
چراغ شب میں جلانے کو حسرتیں من کی
جبیں ، جگر سبھی اپنا لہو ، لہو کرتے
لٹا کے تجھ پہ دل و جاں خوشی سے سب اپنا
کسی حبیب کی اور ہم نہ آرزو کرتے

0
88