بتا پائے نہ دل ، کیسے پڑی ہے
محبت کی بھی کیا اک ہتھکڑی ہے
بہت مشکل ہے اس میں سںنبھلنا
سفر ہے ہجر کا ، منزل کڑی ہے
مسافت ہے گماں کی روز یارو
انا سے جنگ ہر لمحہ ، گھڑی ہے
اڑی سی خاک ہے نکہتے گل کی
کبھی مسلی ہوئی اک پنکھڑی ہے
گھٹی سی ہے فضا فرقت کی ایسی
صبا چاندنی سے جیسے لڑی ہے
رکی غم کی ندی ہے پربتوں میں
کبھی برسات آنکھوں کی جھڑی ہے
کہا ہے موت شاہد جس کو جگ نے
قضا سے بھی قضا شاید بڑی ہے

0
56