تم بڑا اپنا ہی قد کرتے ہو
نام جگ کے جو خرد کرتے ہو
ہے حقیقت یہ اگر مانو تو
زندہ خود کو تا ابد کرتے ہو
ہاتھ جب ہاتھ پہ رکھ لیتے ہو
اپنے ہونے کو بھی رد کرتے ہو
شرط ہے رب کی کرو کوشش تم
کیوں تمنائے لحد کرتے ہو
عافیت چپ میں سمجھتے ہو گر
تم بھی ظالم کی مدد کرتے ہو
سانس لینے کو اٹھو لوگو اب
لاش کیوں بن کے یوں حد کرتے ہو
دوش قسمت کو نہ دو ہر شاہد
تم جسے خود سے سند کرتے ہو

0
24