| کچھ ڈوبتے ہوؤں کو سہارا نہیں ملا |
| دریا میں کشتیوں کو کنارا نہیں ملا |
| امید تھی سبھی کو حقیقت میں چاند سے |
| سر شام روشنی کو ستارہ نہیں ملا |
| ہم بھی گلاب دیں گے عوض میں گلاب کے |
| یہ کہہ کے شخص ہم کو دوبارہ نہیں ملا |
| سب بجھ گئے چراغ بھی راہوں کو دیکھتے |
| آنکھوں کو آج تک گیا ، پیارا نہیں ملا |
| آنسو تھمے رہے آنکھوں میں رات بھر |
| کس سے ہو شکوہ کوئی اشارہ نہیں ملا |
| کر کے یقیں محبتوں پر دل جہان کی |
| دھڑکا وہ اس طرح سے کہ یارا نہیں ملا |
| یہ شہر بھی ہمیں کوئی اپنا سا کیوں لگے |
| شاہد ہمیں تو غم بھی ہمارا نہیں ملا |
معلومات