اپنے ہی ہم قدم نہیں ہوتے
یوں کبھی ہم میں ہم نہیں ہوتے
حادثے ایسے ہو گزرتے ہیں
زخم جن کے رقم نہیں ہوتے
سب مکر جاتے ہیں قسم دے کے
جیسے دیر و حرم نہیں ہوتے
بھیڑ ہوتی ہے یوں تو لوگوں کی
ان میں شامل صنم نہیں ہوتے
امتحاں عشق گر نہیں ہوتا
زندگی تیرے غم نہیں ہوتے
لوگ چلتے ہیں رہ محبت کی
فاصلے پھر بھی کم نہیں ہوتے
ساری باتوں کا یہ خلاصہ ہے
یار شاہد بلم نہیں ہوتے

0
64