| کون اب آس ، پاس رہتا ہے |
| دل کہ اکثر اداس رہتا ہے |
| آن بستا ہے شام ڈھلتے ہی |
| بن کے مدت کی پیاس رہتا ہے |
| غم کا پیمانہ خود ہی بھرتا ہے |
| خود ہی پھر بد حواس رہتا ہے |
| ہجر کا کہہ کے شب سے افسانہ |
| حسن بھی بے لباس رہتا ہے |
| اس سے ہم کو ہزار شکوے ہیں |
| پر ذکر اس کا خاص رہتا ہے |
| اپنی قسمت سے ہم نہیں واقف |
| جگ مگر رو شناس رہتا ہے |
| لوگ شاہد مگن ہیں دنیا میں |
| ہم کو رشتوں کا پاس رہتا ہے |
معلومات