| اک قبا اپنی کتر کے بیٹھے ہیں |
| شہر میں تیرے سنور کے بیٹھے ہیں |
| ڈوبنے کا ڈر نہیں ہے دل کو کچھ |
| راہ میں لیکن بھنور کے بیٹھے ہیں |
| کاٹ کے زنجیر پاؤں کی پڑی |
| سائے میں ٹوٹے شجر کے بیٹھے ہیں |
| ہم پہ طاری ہیں محبت کے نشے |
| آسماں سے پر اتر کے بیٹھے ہیں |
| سر پہ سایہ ہے ہمارے دھوپ کا |
| بن کسی دیوار و در کے بیٹھے ہیں |
| روشنی ہے چاند کی من میں بھری |
| زخم جو لے کے جگر کے بیٹھے ہیں |
| آئینے میں دیکھ کے شاہد انہیں |
| فرش پر ہم آہ بھر کے بیٹھے ہیں |
معلومات