پھونک دے ہستی میں میرے بھی اجالے آ کے
پھر مجھے اک موج کناروں پہ اچھالے آ کے
ہجر کے کالے اندھیرے ہیں محبت میں سب
اس پریشانی میں کوئی تو سنبھالے آ کے
رنج میں اس کو بنائیں کیا ساتھی اپنا
غم وہ تنہائی کا میری نہ بٹا لے آ کے
یار کے در پہ ہی رہنے کی ہے خواہش دل میں
یہ تمنا نہ کہیں ساتھ بہا لے آ کے
ہے اگر زندگی باقی تو یہی حسرت ہے
کچھ تو نظروں میں ہمیں ان کی اٹھا لے آ کے
اے زمانے ! ترے حالات کے ہیں قیدی ہم
کاش آنگن میں وہ سورج کو نکالے آ کے
آج بھی زلف کو چھونے سے ڈرا کرتے ہیں
جھونکا اک بات ہی شاہد نہ بنا لے آ کے

0
54