| پھونک دے ہستی میں میرے بھی اجالے آ کے |
| پھر مجھے اک موج کناروں پہ اچھالے آ کے |
| ہجر کے کالے اندھیرے ہیں محبت میں سب |
| اس پریشانی میں کوئی تو سنبھالے آ کے |
| رنج میں اس کو بنائیں کیا ساتھی اپنا |
| غم وہ تنہائی کا میری نہ بٹا لے آ کے |
| یار کے در پہ ہی رہنے کی ہے خواہش دل میں |
| یہ تمنا نہ کہیں ساتھ بہا لے آ کے |
| ہے اگر زندگی باقی تو یہی حسرت ہے |
| کچھ تو نظروں میں ہمیں ان کی اٹھا لے آ کے |
| اے زمانے ! ترے حالات کے ہیں قیدی ہم |
| کاش آنگن میں وہ سورج کو نکالے آ کے |
| آج بھی زلف کو چھونے سے ڈرا کرتے ہیں |
| جھونکا اک بات ہی شاہد نہ بنا لے آ کے |
معلومات