در ، بدر کو مکان مل گیا ہے
مجھ کو سارا جہان مل گیا ہے
مل گئی ہے سفر کو سمت نئی
اک نیا کاروان مل گیا ہے
نا امیدی نے پائی ہے یوں کرن
دشت میں ساربان مل گیا ہے
آنکھ میں ہے پناہ مجھ کو ملی
میرا وہم و گمان مل گیا ہے
شور کوئی بھی اب کہانی بنے
جگ کو میرا بیان مل گیا ہے
ڈھل گئی ہے غموں کی شام کہیں
عشق کو ہر لگان مل گیا ہے
ساتھ شاہد جو چل رہا تھا مرے
شب کے وہ درمیان مل گیا ہے

34