یار میرے جو اگر تیری نظر ہو جاتی
داستاں اپنی ، کہانی بھی امر ہو جاتی
ہونے کا اپنے ہمیں کوئی یقیں ہو جاتا
قرب حاصل جو ترا ہم پہ نظر ہو جاتی
ہم کو آ جاتا سلیقہ جہاں میں جینے کا
تیری دہلیز سکوں اپنا جو گھر ہو جاتی
پیار کے خواب حقیقت میں سبھی ڈھل جاتے
تیرے گیسو کے جو سائے میں سحر ہو جاتی
جاگ اٹھتے کہیں پر دور فلک کے تارے
ہجر میں اپنی جو تسکین جگر ہو جاتی
مل ہمیں جاتی رہائی جہاں کے ہر غم سے
تلخئ دار و رسن ہم سے جو سر ہو جاتی
مانتے ہم بھی اسے اپنے سفر کی منزل
ہم سے گر زندگی شاہد یہ بسر ہو جاتی

0
58