یار میرے جو اگر تیری نظر ہو جاتی |
داستاں اپنی ، کہانی بھی امر ہو جاتی |
ہونے کا اپنے ہمیں کوئی یقیں ہو جاتا |
قرب حاصل جو ترا ہم پہ نظر ہو جاتی |
ہم کو آ جاتا سلیقہ جہاں میں جینے کا |
تیری دہلیز سکوں اپنا جو گھر ہو جاتی |
پیار کے خواب حقیقت میں سبھی ڈھل جاتے |
تیرے گیسو کے جو سائے میں سحر ہو جاتی |
جاگ اٹھتے کہیں پر دور فلک کے تارے |
ہجر میں اپنی جو تسکین جگر ہو جاتی |
مل ہمیں جاتی رہائی جہاں کے ہر غم سے |
تلخئ دار و رسن ہم سے جو سر ہو جاتی |
مانتے ہم بھی اسے اپنے سفر کی منزل |
ہم سے گر زندگی شاہد یہ بسر ہو جاتی |
معلومات