ہم نے پلکوں میں بسایا ہے حفاظت کی ہے |
ٹوٹ کے چاہا تجھے یوں کہ عبادت کی ہے |
سر جھکایا نہیں قدموں میں کبھی دنیا کے |
ہر روایت سے زمانے کی بغاوت کی ہے |
روز ہم چاک گریبان لئے پھرتے ہیں |
ہم نے کب شکوہ کیا جگ سے شکایت کی ہے |
رات الفت میں اگر ساتھ چلے ہیں تارے |
چاند کے ساتھ سدا ہم نے بھی ہجرت کی ہے |
ہے ستم رت پہ وفاؤں کی ، کھلے موسم کا |
نام پھولوں کے تری جس نے نزاکت کی ہے |
بن ترے جینے کی خواہش نہیں باقی من میں |
دل نے دن رات ترے در پہ ریاضت کی ہے |
شہر سارا ہی بنا رکھا ہے دشمن شاہد |
لوگ کہتے ہیں کہ کیوں تجھ سے محبت کی ہے |
معلومات