لوگ کہتے ہیں کہ ہم گر کے سنبھل جاتے ہیں
یار کے کوچے میں آ کے جو بہل جاتے ہیں
کچھ جمے سے ہیں بہے آنکھ میں آنسو لیکن
وصل کی آس میں سارے ہی پگھل جاتے ہیں
من کو گوشہ یہی مانوس سا اک لگتا ہے
سامنے درد کے چہرے بھی بدل جاتے ہیں
اچھے لگتے ہیں نظارے ہمیں سب رونق کے
دل کی تنہائی سے جو پل کو نکل جاتے ہیں
یاد آتے ہیں سبھی اپنی جوانی کے دن
لمحے الفت کے غزل میں کسی ڈھل جاتے ہیں
اک بکھر جاتی ہے خوشبو بھی گلوں کی ہر سو
پیار کے گیت کئی لب پہ مچل جاتے ہیں
شوخ سی لالی مگر عشق میں ڈس لیتی ہے
ناگ زلفوں کبھی کالے سے جو کھل جاتے ہیں
جانے کیوں لوگ ترستے ہیں وفا کو شاہد
دکھ ملے یار کے انسان نگل جاتے ہیں

0
81