دشت میں جیسے ہو شجر تنہا
مجھ میں بستا ہے یوں ، بشر تنہا
رات خاموش من کا موسم چپ
منتظر آنکھیں اور سحر تنہا
دید کی آس بھی نہیں لیکن
پھر بھی ہوتا ہے ہر سفر تنہا
بچ گئی جان اک غنیمت ہے
خود کو دیتے ہیں یہ خبر تنہا
جانتے جگ کی ہیں حقیقت ہم
غم نچاتے ہیں عمر بھر تنہا
زندگی تیرا بھی کرم ہے جو
تیز کٹتے ہیں دھار پر تنہا
بوجھ ہے دل پہ اک ہمیشہ سے
لاکھ ہیں درد ، چارہ گر تنہا
کوئی آواز دے ستم گر کو
ساتھ جگنو کا ، رہ گزر تنہا
گن کے حصے میں آئے شاہد دکھ
چھوڑ جائیں گے گھر ، نگر تنہا

0
5